خبریں

عمران خان کے دعوے اور عوامی غصہ

آئی ایم ایف نے پاکستان کی جی ڈی پی نمو کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ اس برس 2.4 فیصد رہے گی جب کہ مہنگآئی 13 فیصد تک ہوجائے گی، جس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد ہو جائے گی۔

پی ٹی آئی کے دعوے اور عوامی غصہ
پی ٹی آئی کے دعوے اور عوامی غصہ 

پاکستان تحریک انصاف اس نعرے پر حکومت میں آئی تھی کہ وہ معاشی نمو میں اضافہ کرے گی جب کہ بے روزگاری اور مہنگائی کو کم کرے گی لیکن آئی ایم ایف کی رپورٹ حکومت کے اس دعوے کو مسترد کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھے گی جب کہ معاشی ترقی کی نمو میں بھی کمی ہوگی۔

Published: undefined

مختلف ممالک کو قرضہ دینے والی اس عالمی مالیاتی تنظیم نے سال 2020ء کے لیے کم معاشی نمو کی پیشگوئی کی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی جی ڈی پی نمو کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ اس برس 2.4 فیصد رہے گی جب کہ مہنگائی 13 فیصد تک ہوجائے گی، جس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد ہو جائے گی۔

Published: undefined

ماہرین کے خیال میں اس مایوس کن رپورٹ سے یہ بات واضح ہے کہ آٹے اور چینی کے بحرانوں میں گھرے پاکستان میں مذید معاشی بدحالی آئے گی، جو اپنے ساتھ مہنگائی کا سیلاب بھی لائے گی اور لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی کم کرے گی۔

Published: undefined

واضح رہے حکومت کے کچھ حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ برس روزگار فراہم کرنے اور عوام کو ریلف فراہم کرنے کا سال ہے اور یہ کہ وفاقی حکومت ایک لاکھ سے زائد افراد کو روزگار دینے کا بھی سوچ رہی ہے لیکن حکومت کے ناقدین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کی اس رپورٹ کے پیش نظر ایسا نہیں لگتا کہ عوام کو روزگار ملے گا یا پھر انہیں مہنگائی اور غربت سے نجات ملے گی۔

Published: undefined

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پی ٹی آئی کی حکومت پر حزب اختلاف تنقید کے نشتر چلا رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ آصف نے حال ہی میں حکومت پر الزام لگایا کہ اس سے وابستہ افراد نے چینی کا بحران پیدا کر کے اربوں روپیہ کمایا ہے جبکہ آٹے کے بحران کے حوالے سے بھی عمران خان کے قریبی افراد پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔

Published: undefined

آج منگل 21 جنوری کو اسلام آباد میں بلاول بھٹو زرداری نے بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ عوام کا معاشی قتل عام کر رہی ہے۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر حفیظ پاشا نے حال ہی میں ایک انکشاف کیا تھا جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں نو لاکھ سے زائد افراد سطح غربت سے نیچے آچکے ۔ واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پہلے ہی چھ کروڑ سے زائد افراد سطح غربت سے نیچے رہے ہیں ہیں۔

Published: undefined

معیشت دانوں کی بحث ومباحث سے دور عوام صرف اس بات کا جواب چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپنے وعدے کے مطابق لوگوں کو نوکریاں کب دے گی اور مہنگائی و بے ورزگاری کو کب کم کرے گی۔ اسلام آباد کی کچی آبادیاں، مزدور بستیاں اور یہاں تک کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی حکومت کی ان معاشی پالیسیوں پر غصے سے بھرے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد کی ایک کچی بستی مہرآباد سے تعلق رکھنے والے لال خان کہتے ہیں کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو بہت امیدوں کے ساتھ ووٹ دیا تھا: ''لیکن اب مجھے اس ووٹ دینے پر بہت پشیمانی ہے۔ پہلے ٹماٹر دستیاب نہیں تھا اور اب آٹے اور چینی کی قیمت آسمان سے بات کر رہی ہے۔ میں 12 سے 16 گھنٹے ٹیکسی چلاتا ہوں لیکن پھر بھی میں اپنے بچوں کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔‘‘

Published: undefined

لال خان کے ساتھ کھڑے انور لاشاری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مہنگائی نے غریب آدمی کا جینا دو بھر کر دیا ہے: ''اسلام آباد میں جرائم کی شرح بہت کم ہوتی تھی لیکن جب سے پی ٹی آئی حکومت میں آئی ہے، اس میں اضاضہ ہوتا جارہا ہے۔ آخر لوگ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے چوری نہ کریں تو پھر کیا کریں۔‘‘ انور لاشاری کا مزید کہنا تھا کہ وہ 800 روپے روزانہ کماتا ہے: ''میری فیملی راجن پور میں ہے لیکن اتنے پیسوں میں اب میرا گزارا نہیں ہو رہا، تو میں راجن پور میں اپنے گھر والوں کے لیے کیسے پیسے بھیجوں؟ ہماری جیسی آبادی میں بھی گیس اور بجلی کا بل پانچ پانچ ہزار روپے کا آرہا ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ خودکشی کر لوں۔‘‘

Published: undefined

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ یہ صرف غریب افراد ہی نہیں ہیں جو حکومت کی معاشی پالیسیوں سے تنگ ہیں بلکہ متوسط طبقے کے افراد بھی معاشی بد حالی سے مسائل میں گھر گئے ہیں۔ اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن سے تعلق رکھنے والے آصف چیمہ کہتے ہیں کہ نہ صرف کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہورہی ہیں بلکہ گیس اور بجلی کے بلوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہورہا ہے: ''میری ایک معمولی سے سرکاری نوکری ہے۔ میں پانچ بچوں کے ساتھ جس طرح گزارا کر رہا ہوں وہ میں جانتا ہوں یا میرا رب۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود پنڈی اور اسلام آباد کئی علاقوں میں گیس نایاب ہے یا اس کا پریشر بہت کم ہے۔ نتیجتاﹰ آپ کو ہوٹل سے کھانا منگوانا پڑتا ہے لیکن آپ ایسا کب تک کر سکتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے تبدیلی کی بات کی تھی: ''لیکن میں پوچھتا ہوں کہاں ہے روزگار؟ کہاں ہیں کروڑوں گھر؟ کہاں ہے خوشحالی؟ کیا بھوک اور غربت کم ہوئی ہے؟ کیا مہنگائی پر کنٹرول ہوا ہے؟ اس سے بہتر تو نواز شریف تھا۔ کھاتا تھا لیکن کچھ لگاتا بھی تھا۔ یہ تو صرف کھا رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

تاہم پی ٹی آئی کے حمایتی ان سارے مسائل کا ذمہ دار ن لیگ کی پالیسیوں کو ٹھہراتے ہیں۔ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے قادر خٹک کا، جن کا اسلام آباد کے علاقے جی ٹین میں ایک کریانہ اسٹور ہے، کہنا ہے کہ حالات کو بہتر کرنے میں وقت لگے گا: ''دیکھیں اسحاق ڈار نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت کو کم رکھا، جو ایک نہ ایک دن بڑھنا تھی۔ اس کے علاوہ جو نون لیگ اور پی پی پی نے قرضہ لیا، آج وہ قرض عمران خان ادا کر رہا ہے۔ یہ اقدامات سخت ہیں لیکن میرے خیال میں کچھ عرصے بعد اس سے معیشت میں بہتری آئے گی۔ جب عوام نے نون لیگ اور پی پی پی کو 30 سال تک برداشت کیا تو وہ پی ٹی آئی کو کم از کم پانچ سال تو دیں۔‘‘

Published: undefined

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سماجی سطح پر اس سے نہ صرف سیاست دانوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے بلکہ فوج، جسے پی ٹی آئی کا حمایتی سمجھا جاتا ہے، کے خلاف بھی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے ورزگاری اور غربت سے پی ٹی آئی کے لیے مشکلات بڑھیں گی اور عوامی حلقوں میں اس کی مقبولیت تیزی سے کم ہوگی۔ جب کہ معاشی نمو میں کمی سے بھی عوام کے مسائل میں اضافہ ہوگا، جس کا نزلہ کسی وقت بھی پی ٹی آئی پر گر سکتا ہے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined