تفصیلات کے مطابق ابتدائی طور پر یہ اجازت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عارضی طور پر چار ہفتوں کے لیے ہوگی لیکن اگر اس دوران نواز شریف روبصحت نہیں ہوتے تو ان کے بیرون ملک قیام کی مدت میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
اس فیصلے کے بعد عدالتی کمرے کے باہر مسلم لیگ نون کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عدالت عالیہ نے حکومت کی طرف سے شورٹی بانڈ جمع کروانے کے شرط کو نامنظور کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت تفصیلی فیصلے کی تحریری کاپی موصول ہونے کے بعد ہی اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
Published: undefined
لاہور ہائی کورٹ نے ہفتے کے روز مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف کی طرف سے دائر کی جانے والی اس درخواست کی سماعت کی، جس میں انہوں نے وفاقی حکومت کی طرف سے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے لیے عائد کی گئی شرائط کو چیلنج کیا تھا۔
Published: undefined
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں قائم کیے گئے لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے متعدد وقفوں کے ساتھ اس کیس کی سماعت دن بھر جاری رکھی۔ اس کیس کی سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت کی جانب سے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر نون لیگ کو انڈیمنٹی بانڈ حکومت کی بجائے ہائیکورٹ میں جمع کروانے کی پیشکش کی گئی۔ لیکن اسے شہباز شریف کے وکلا نے تسلیم نہیں کیا۔
Published: undefined
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے حوالے سے ان کے بھائی شہباز شریف نے اپنے بیان حلفی کا تحریری ڈرا فٹ عدالت میں جمع کروایا کہ نواز شریف پاکستان کے ڈاکٹروں کی سفارش پر بیرون ملک جارہے ہیں اور بیرون ملک ڈاکٹر جیسے ہی اجازت دیں گے نواز شریف فوری وطن واپس آ جائیں گے۔ بیان کے مطابق نواز شریف صحت مند ہوتے ہی وطن واپس آ کر اپنے عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔
Published: undefined
دوسری طرف سرکاری وکیل کی جانب سے بھی عدالت میں بیان حلفی کے لیے ایک ڈرافٹ دیا گیا۔ اس کے مطابق نواز شریف طبی بنیادوں پر بیرون ملک جائیں گے، ڈاکٹرز کی جانب سے اجازت کے فوری بعد نواز شریف واپس آ جائیں گے،'' وفاقی حکومت جب چاہے گی نواز شریف کو واپس آنا ہو گا، شہباز شریف بیان حلفی دیں کہ نواز شریف واپس نہیں آتے تو جرمانے کی رقم ادا کریں گے۔‘‘
Published: undefined
فریقین کی طرف سے ایک دوسرے کے ڈرافٹ کو مسترد کر دینے کے بعد عدالت نے اپنا ڈرافٹ تیارکیا، اس میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف چار ہفتے کے لیے ملک سے باہر علاج کے لیے جا سکتے ہیں اگر وہ اس کے بعد بھی صحت یاب نہیں ہوتے تو پھر بیرون ملک قیام کی مدت کو بڑھایا جا سکے گا۔ اس دوران ہائی کمیشن کا کوئی افسر نواز شریف سے ملاقات بھی کر سکے گا۔
Published: undefined
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ روز حکومت اور نیب کی طرف سے عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کا موقف مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ کیس سننے اور فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز صحافی مظہر عباس نے بتایا کہ ہفتے کے روز عدالتی محاذ پر ہونے والی دونوں جماعتوں کی تگ و دو سے پتا چلتا ہے کہ تحریک انصاف نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کو کسی مبینہ ڈیل کے تاثر کی نفی کرنا چاہتی تھی۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی کو کارکنوں کو مطمئن کرنے کے لیے گارنٹی کا قدم اٹھانا پڑا۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون بھی یہ نہیں چاہتی تھی کہ حکومت نواز شریف کی بیماری کی آڑ میں ان سے بانڈ لے کر ان کی کرپشن کے حوالے سے پوائنٹ سکورنگ کرے۔
Published: undefined
مظہر عباس کے خیال میں اگر نواز شریف کو کچھ ہو جاتا تو اس سے پاکستان تحریک انصاف کو ناقابل تلافی سیاسی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ یہ وہ بات تھی جو حکومت کے اتحادیوں نے محسوس کر لی تھی اسی لیے چوہدری برادران اور ایم کیو ایم کی طرف سے نواز شریف کے حق میں بیانات دیکھنے میں آئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined