بدھ کے دن عمران خان نے جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں خطاب کرتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا نام لیے بغیر یہ کہا کہ کچھ عناصر انتشار پھیلانا چاہتے ہیں اور ان کے رہنماؤں کو بیرون ممالک سے پیشہ مل رہا ہے۔
Published: undefined
سول سوسائٹی، سیاست دانوں اور پختون قوم پرستوں نے اس بیان کے ردعمل میں حکومت کا خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پی ٹی ایم کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
واضح رہے کہ پاکستان کی طاقت ور اسٹبلشمنٹ پی ٹی ایم کو شک کی نظر سے دیکھتی ہےاور طاقتور حلقوں میں کے خیال میں اس تحریک کو افغانستان سمیت دوسرے ممالک کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے پی ٹی ایم کی حمایت میں ایک بیان نے پاکستانی سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی۔ پاکستان کے کئی حلقوں نے افغان صدر کے اس بیان پر شدید ردعمل بھی ظاہر کیا تھا۔
Published: undefined
تاہم پاکستان کے کئی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم ایک مقامی تحریک ہے، جس کا بیرونی امداد سے کوئی تعلق نہیں۔ نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے بندرگارہ اور جہاز رانی میر حاصل بزنجو کے خیال مین اس طرح کا بیان کسی ملک کے وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتا۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بزنجو نے کہا، ’’پی ٹی ایم کوئی خفیہ یا دہشت گرد تنظیم نہیں ہے۔ اس تنظیم کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ عمران خان ایسی تنظیم پر کیسے اس طرح کے الزامات عائد کر سکتے ہیں۔ اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تو وہ سپریم کورٹ جا کر اس تنظیم پر پابندی لگوا دیں لیکن عمران خان کو معلوم ہے کہ ان کے الزامات درست نہیں ہیں۔ پی ٹی ایم کے مطالبات سیاسی ہیں اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان مطالبات کو تسلیم کرے۔‘‘
Published: undefined
قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے برعکس پختون قوم پرست اس بیان پر چراغ پا ہیں اور ان کے خیال میں یہ بیان پختونوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ معروف پختون قوم پرست سیاست دان اور سابق ایم این اے بشری گوہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ کٹھ پتلی وزیر اعظم کا بغیر ثبوت کے پی ٹی ایم پر الزام لگانا قابل مذمت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیرستان میں پی ٹی ایم کے عظیم الشان جلسے نے کٹھ پتلی وزیر اعظم اور ان کی ڈور ہلانے والوں کو حواس باختہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ ایسے الزامات لگا رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
عمران خان پر ملک میں پہلے ہی یو ٹرن اور متضاد بیانات دینے پر تنقید ہو رہی ہے۔ بشری گوہر کے خیال میں وانا میں دیے گئے عمران خان کے اس بیان نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کی زبان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، ’’کچھ دن پہلے اورکزئی میں انہوں نے پی ٹی ایم کے مطالبات کو جائز قرار دیا تھا اور وانا میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پشتونوں کے زخموں پر نمک چھڑکا اور ایسے نوجوانوں پر باہر سے پیشے لینے کا الزام لگایا جو پرامن طریقے سے آئینی حقوق مانگ رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
بشری گوہر نے خبردار کیا کہ پی ٹی ایم پر حملہ یا کریک ڈاؤن پختونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ پاکستان میں ستر کی دہائی میں پختونوں میں مرکز کے خلاف نفرت رہی ہے اور کچھ عناصر نے گریٹر پختونستان کی تحریک بھی چلائی تھی۔ پختون دانشوروں کا خیال ہے کہ ان کی قوم میں پہلے ہی بہت احساس محرومی ہے اور اگر اب پی ٹی ایم کے خلاف کوئی عسکری ایکشن ہوا تو بات بہت دور تک جائے گی۔
Published: undefined
پختون دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی ایم کے خلاف کوئی ایکشن ہوا تو صورتحال ایک ایسی نہج پر پہنچ سکتی ہے، جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا، ’’پختون ایک مظلوم قوم ہےاور ان میں اس ظلم کے خلاف بہت غصہ ہے۔ ہمارے کچھ دوست اب بھی مذاکرات اور معاملات کو حل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں لیکن اگر ہمارے خلاف طاقت استعمال کی گئی تو پھر ان چند دوستوں کا اعتبار بھی ریاست سے اٹھ جائے گا، جس کے نتائج سنگین ہوں گے۔‘‘
Published: undefined
عمران خان کے بیان پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’عمران خان نے یہ بیان دے کر مظلوم لوگوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ان کے الزامات سچ ہیں تو کیا وہ اتنے بے بس ہیں کہ وہ ان الزامات کی تفتیش بھی نہیں کرا سکے۔‘‘
Published: undefined
پاکستان کی سول سوسائٹی پی ٹی ایم کے مطالبات کی حمایت کرتی ہے۔ پی ٹی ایم کے اہم مطالبات میں گمشدہ افراد کی بازیابی کا معاملہ کافی شہرت حاصل کر چکا ہے۔
Published: undefined
پاکستان کے متعدد حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاست دان ان مسائل کے حل کی کوششوں کے بجائے الزام تراشی پر مبنی سیاست کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ عمران خان کا یہ بیان انتہائی نامناسب ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے ملک میں یہ روایت بن گئی ہے کہ لوگوں پر بس الزام لگا دیا جائے۔ میرے خیال میں سیاست دانوں کو گمشدہ افراد کی بازیابی جیسے مسائل کے علاوہ دیگر مسائل کے حل کی خاطر مل بیٹھ کر ایک لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے، جس کے تحت الزام در الزام کا سلسلہ بند ہو جائے۔‘‘
Published: undefined
پی ٹی ایم کے رہنما اور نوشہرہ سے رکن قومی اسمبلی سراج محمد خان نے اس مسئلے پر اپنی پارٹی کا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عمران خان ایک ایمان دار، صاف اور شفاف آدمی ہیں۔ اگر انہوں نے پی ٹی ایم کے بارے میں ایسا کہا ہے تو ان کے پاس ثبوت بھی ہوں گے اور خان صاحب کو چاہیے کہ وہ یہ ثبوت عوام کے سامنے لے کر آئیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: محمد تسلیم
تصویر: سوشل میڈیا