خبریں

دہلی میں موجود سفارت کاروں کو کشمیر لے جانے کی دعوت

مودی حکومت نے آئیندہ چند روز میں یورپی اور اسلامی ممالک کے سفارت کاروں کو جموں کشمیر کا دورہ کرانے کی دعوت دی ہے لیکن بعض سفارتکاروں نے اس قسم کے دورے کے افادیت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

دہلی میں موجود سفارت کاروں کو کشمیر لے جانے کی دعوت
دہلی میں موجود سفارت کاروں کو کشمیر لے جانے کی دعوت 

اطلاعات کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے دہلی میں متعدد سفارت کاروں سے رابطہ کیا ہے، جن میں مشرق وسطیٰ اور او آئی سی کے نمائندے شامل ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ یہ دورہ نو جنوری یعنی آج سے شروع ہوسکتا ہے، جس میں سکیورٹی کا انتظام کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے ہاتھ میں ہوگا۔

Published: undefined

بھارت نے اگست کے اوائل میں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے ریاست کے تمام بڑے رہنماؤں کو قید کر دیا تھا اور کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس میں سے کچھ پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں تاہم انٹرنیٹ پر ابھی پابندی عائد ہے اور ریاست کے بیشتر بڑے سیاسی رہنما اب بھی نظر بند ہیں۔

Published: undefined

خیال ہے کہ مودی حکومت نے کشمیر پر عالمی تشویش زائل کرنے کے لیے ان اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے ابھی تک ایسے کسی دورے کی تصدیق نہیں کی تاہم بھارتی میڈيا میں اس سے متعلق خبریں شائع ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس دورے پر کچھ سفارت کاروں نے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

Published: undefined

یورپی یونین کے بعض سفارت کاروں نے حکومت سے پوچھا ہے کہ کشمیر کے دورے میں انہیں آزادنہ لوگوں سے ملنے کی اجازت ہوگي یا نہیں۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس دورے میں سفارت کاروں کو سکیورٹی فورسز اور مقامی افسران زمینی حالات سے آگاہ کریں گے۔ بھارت میں بیشتر دانشور اور سرکردہ شخصیات کشمیر سے متعلق مودی حکومت کے اقدامات پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔

Published: undefined

دلی میں انسٹیٹوٹ فار کانفلیکیٹ مینیجمنٹ کے ڈائریکٹر اجے ساہنی کہتے ہیں کہ، "سوال یہ ہے کہ سفارت کاروں کو عام لوگوں تک رسائی کتنی ہوگي تاکہ وہ خود اپنی رائے قائم کر سکیں؟" انہوں نے مزید کہا کہ، "سفارت کار تو گيلانی اور اپوزیشن رہنماؤں سے بھی ملنا چاہیں گے، تو کیا حکومت ملنے دے گی؟ لوگ بیوقوف نہیں ہیں، وہ خود چیزوں کو دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔"

Published: undefined

گزشتہ اکتوبر بھارتی حکومت نے یوروپی یونین کے تقریبا دودرجن ارکان پارلیمان کو کشمیر کا دورہ کروایا تھا۔ اس گروپ میں بیشتر ارکان کا تعلق سخت گیر دائیں بازو کی جماعتوں سے تھا۔ انہیں کشمیر سیاحوں کی طرح لے جایا گيا اور سول سوسائٹی سے ملنے نہیں دیا گيا، جس کے بعد میں حکومت پر سخت نکتہ چینی ہوئی تھی۔

Published: undefined

کئی حلقوں کی طرف سے سوالات اٹھائے گئے کہ جب ریاست کے کئی بڑے رہنما قید میں ہیں، کشمیری ارکان پارلیمان نظر بند ہیں اور خود کشمیریوں کو نقل و حرکت کی اجازت نہیں تو باہر کے ارکارن پارلیمان کے دورہ کشمیر کا کیا مقصد تھا۔

Published: undefined

نکتہ چینی اتنی زیادہ ہوئی کہ بعد میں یورپی یونین کو ایک وضاحتی بیان میں کہنا پڑا کہ تمام ارکان اپنی ذاتی حیثیت میں کشمیر کے دورے پر گئے تھے اور وہ کسی ملک کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined