خبریں

اسلام آباد: عورت مارچ کے شرکاء پر حملہ ’ریاست کی طرف سے تھا‘

اسلام آباد میں اتوار آٹھ مارچ کے روز عورت مارچ کے شرکاء پر مذہبی تنظیموں کے کارکنوں کے حملے میں پانچ افراد زخمی ہو گئے۔ مارچ کے منتظمین نے اسے ’ریاست کی طرف سے حملہ‘ قرار دیا۔

اسلام آباد: عورت مارچ کے شرکاء پر حملہ ’ریاست کی طرف سے تھا‘
اسلام آباد: عورت مارچ کے شرکاء پر حملہ ’ریاست کی طرف سے تھا‘ 

آج اتوار کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد میں عوامی ورکرز پارٹی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے بعد دوپہر دو بجے نیشنل پریس کلب سے ایک ریلی نکالی جانا تھی۔ لیکن ریلی کی جگہ کے سامنے پہلے جامعہ حفصہ کی طالبات نے ایک ریلی نکالی اور بعد میں جے یو آئی ایف، کالعدم سپاہ صحابہ اور دوسری مذہبی تنظیموں کی طرف سے عورت مارچ کے مقابلے میں ایک ریلی نکالی گئی۔ مذہبی نتظیموں کی طرف سے نکالی جانے والی ریلیوں میں انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کی گئی اور عورت مارچ میں شرکت کرنے والی خواتین اور مردوں کو بے غیرت اور مغرب زدہ بھی قرار دیا گیا۔

Published: undefined

مذہبی تنظیموں نے اس ریلی کا نام 'حیا مارچ‘ رکھا تھا جب کہ عورت مارچ کے منتظمین نے اپنے مارچ کو 'عورت آزادی مارچ‘ کا نام دیا تھا۔ عورت مارچ ریلی دو بجے شروع ہونا تھی لیکن جامعہ حفصہ کی طرف سے پریس کلب کے بائیں جانب ایک ریلی نکالنے کی وجہ سے عورت مارچ کے منتظمین نے اپنی ریلی تین بجے کے بعد نکالی تاکہ کوئی تصادم نہ ہو۔ لیکن تین بجے کے بعد پریس کلب کے بائیں جانب جے یو آئی ایف، کالعدم سپاہ صحابہ اور مدارس کے طلبا و طالبات نے بھی ایک ریلی نکالی۔ انہوں نے اپنی تنظیموں کے نام استعمال کرنے کے بجائے اپنے بینروں اور پلے کارڈز پر 'سول سوسائٹی اور علماء‘ لکھا ہوا تھا۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری بھی وہاں موجود تھی اور پولیس نے پریس کلب والی سڑک پر ٹینٹ لگا کر دونوں ریلیوں کے شرکاء اور ان کے راستوں کو الگ الگ کر رکھا تھا۔ تاہم لاؤڈ اسپیکرز کی زور دار آواز کی وجہ سے اطراف کی تقریریں صاف سنائی دے رہی تھیں۔

Published: undefined

جب عورت مارچ کی ریلی سوا تین بجے کے بعد وہاں پہنچی تو اطراف سے زور دار نعرے بازی شروع ہوگئی۔ مقامی وقت کے مطابق شام تقریباﹰ پونے چھ بجے کے قریب جب مذہبی تنظیموں کی ریلی ختم ہونے کو تھی، تو اچانک مذہبی تنظیموں کی ریلی والی جگہ سے عورت مارچ کے شرکاء پر پتھراؤ شروع ہوگیا، جس کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہو گئے۔

Published: undefined

مذہبی تنظیموں کی ریلی نے اس کے بعد ڈی چوک کا رخ کیا جبکہ عورت مارچ کے شرکاء نے اس موقع پر 'ملا گردی نہیں چلے گی، دہشت گردی نہیں چلے گی‘ جیسے نعرے لگائے اور بعد میں ریلی کے شرکاء مسٹر بک والی سڑک کی طرف چل دیے۔ تاہم انتظامیہ نے اس موقع پر ریلی کو آگے جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ جس پر عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما عصمت شاہ جہاں نے انتظامیہ کو متبنہ کیا کہ اگر رکاوٹیں نہ ہٹائی گئیں، تو وہ اور ان کے ساتھی پارٹی کارکن انہیں خود ہٹا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ صرف ملاؤں کی طرف سے اس ممارچ پر حملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ریاست کی طرف سے ہم پر حملہ ہے۔ پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ریلی کی اجازت صرف ہمیں ملی ہے لیکن ملاؤں نے غیر قانونی طور پر ریلیاں نکالیں اور انتظامیہ نے نہ انہیں اس غیر قانونی کام سے روکا اور نہ ہی ان کی طرف سے حملے کو۔‘‘

Published: undefined

عوامی ورکرز پارٹی کے ایک اور مرکزی رہنما فرمان علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آج حکومت کے ان تمام دعووں کی قلعی کھل گئی، جن میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ انتہا پسندوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف ہے۔ آج انتہا پسندوں نے پر امن مردوں، خواتین اور بچوں کے اجتماع پر حملہ کیا۔ ریاست انہیں روکنے میں بالکل ناکام رہی۔ یہ ملا پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے لیکن ان بزدلانہ کارروائیوں سے ہمارے حوصلہ پست نہیں ہوں گے۔‘‘

Published: undefined

دوسری طرف جے یو آئی ایف کے رہنما عبدالمجید ہزاروی نے اس الزام کی تردید کی کہ ان کی پارٹی کی طرف سے کسی قسم کا پتھراؤکیا گیا۔ کالعدم سپاہ صحابہ جو اب جمعیت اہلسنت والجماعت کے نام سے کام کر رہی ہے، کا دعویٰ ہے کہ اس تنظیم اور دیگر مذہبی تنظیموں کی طرف سے نکالے جانے والے حیا مارچ پر عورت مارچ کے شرکاء نے پتھراؤ کیا، جس سے ان کے دوکارکنان زخمی ہو گئے، جنہیں پولی کلینک میں داخل کرایا گیا ہے۔

Published: undefined

اس تنظیم کے ایک مقامی رہنما محمد یاسر قاسمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ریلی کے اختتام سے پہلے دعا پڑھ رہے تھے کہ عورت مارچ کے شرکاء نے اشتعال انگیز نعرے لگائے اور طالبات کو گالیاں دی گئیں، جس کے بعد صورت حال کشیدہ ہو گئی اور انہوں نے پتھراؤ شروع کر دیا، جس سے ہمارے دوکارکن زخمی ہو گئے۔‘‘

Published: undefined

ماضی میں لال مسجد سے منسلک شہداء فاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام کا دعویٰ ہے کہ حیا مارچ کے پندرہ شرکاء پتھراؤ سے زخمی ہوئے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران اسلام آباد کی انتظامیہ چین کی بانسری بجاتی رہی۔ جب ڈی ڈبلیو نے پولیس کنٹرول اسلام آباد سے رابطہ کیا، تو ڈیوٹی پر موجود ایک اہلکار نے بتایا کہ کسی طرح کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے اور نہ ہی کوئی زخمی ہوا ہے۔ اس اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''جامعہ حفصہ اور مذہبی تنظیموں کے کارکنان کا مارچ ختم ہو گیا ہے اور وہ بحفاظت اپنے مقامات پر پہنچ گئے ہیں جب کہ عورت مارچ پر امن طور پر جاری ہے۔‘‘

Published: undefined

غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے عورت مارچ کے شرکاء کو مسٹر بک والی سڑک پر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined