خبریں

کورونا وائرس کا بحران اور امريکی ڈاکٹروں کی بے بسی

چھبیس مارچ کو کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ميں ریکارڈ اضافے کے ساتھ ہی بين الاقوامی ميڈيا سے امريکا کے مختلف ہسپتالوں ميں طبی عملے اور ڈاکٹروں کے ليے سرجيکل ماسک کی شديد قلت کی اطلاعات بھی ملیں۔

کورونا وائرس کا بحران اور امريکی ڈاکٹروں کی بے بسی
کورونا وائرس کا بحران اور امريکی ڈاکٹروں کی بے بسی 

دنیا بھر میں اب تک تقریباﹰ ساڑھے پانچ لاکھ افراد نئے کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہيں۔ ترقی پذير اور غريب ممالک کے ساتھ ساتھ امیر ریاستوں میں بھی صحت عامہ کے نظاموں پر اس وقت غير معمولی دباؤ ہے۔ جن ممالک ميں لاک ڈاؤن ہے، وہاں زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

Published: undefined

غير معمولی اقدامات

Published: undefined

امريکا کو اس وقت نئے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے علاج، بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی اور کئی ریاستوں ميں لاک ڈاؤن کے سبب ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات جيسے کئی بڑے چيلنجز کا سامنا ہے۔

Published: undefined

میساچوسٹس اور نیو یارک کے متعدد میڈیکل اسکولوں نے اس ہفتے اعلان کیا کہ وہ اپنے چوتھے سال کے طلبا و طالبات کی پيشگی گریجویشن کر کے انہيں ہسپتالوں میں دیکھ بھال کے نگران فرنٹ لائن عملے کے طور پر تعينات کر رہے ہيں۔ طبی کارکنوں کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے اور اس وقت سرجری اور ڈینٹل میڈیسن سے لے کر ميڈیکل کے ديگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے سينيئر اور جونيئر تمام ڈاکٹروں کو ہسپتالوں کے ایمرجنسی شعبوں ميں تعينات کیا جا رہا ہے۔

Published: undefined

نیو یارک یونیورسٹی کے بعد ٹفٹس یونیورسٹی ، بوسٹن یونیورسٹی اور میساچوسٹس یونیورسٹی کے میڈیکل اسکولوں نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ریاست میساچوسٹس کی جانب سے میڈیکل ورک فورس کو بڑھانے میں مدد کے ليے درخواست کے بعد مئی کے بجاۓ اپریل ميں ہی گریجویشن کا منصوبہ بنایا ہے۔ اخبار نيو يارک ٹائمز کے مطابق ہارورڈ میڈیکل اسکول نے کہا ہے کہ وہ ایسے ہی ممکنہ اقدام پر 'سرگرمی سے غور کر رہا ہے‘۔

Published: undefined

میساچوسٹس میں ریاست ابتدائی فارغ التحصیل افراد کے ليے 90 دن تک کے لیے عارضی لائسنس فراہم کرے گی، جن سے کلینیکل شعبوں اور فرائض کی انجام دہی میں خود بخود داخلے کی اجازت ہو گی۔ اس اقدام سے میساچوسٹس میں لگ بھگ 700 میڈیکل طلبہ معمول سے کم از کم آٹھ ہفتے قبل ہی مریضوں کی دیکھ بھال کے ليے خود کو پیش کر سکيں گے۔

Published: undefined

ڈاکٹروں کی حالت زار کی عکاسی سوشل ميڈيا پر

Published: undefined

امريکا کے ہسپتالوں ميں اس وقت بغير کسی وقفے کے مسلسل موت اور زندگی کی کشمکش کے درميان کورونا وائرس کے مريضوں کی مدد کرنے والے ڈاکٹر فيس بک کے ذريعے بھی اپنی مشکلات اور مريضوں کی بے بسی بیان کر رہے ہيں۔

Published: undefined

نیو روک ہسپتال کے ايک ڈاکٹر )انٹرنل ميڈيسن ريذيڈنٹ( مارک ايوب نے اپنی ايک فيس بک پوسٹ ميں لکھا، ''میں ابتدائی طور پر COVID-19 کے بارے ميں شاکی تھا۔ آج ميں خوفزدہ ہوں۔ دس دن پہلے ہمارے ہسپتال میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد صفر تھی۔ آج ہمارے پاس سینکڑوں ہیں۔ ہم ایک ہاری جا چکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سرکاری طور پر ہمارے اس ہسپتال میں 13معالجین وائرس کا شکار ہیں ۔غیر سرکاری طور پر اس سے کہيں زیادہ ۔ ہم کیوں کام جاری رکھے ہوئے ہیں؟ کیونکہ اگر ہم نہیں کریں گے، تو کون کرے گا؟ ہم جسمانی طور پر بیمار ہیں ، لیکن کوئی بھی ہماری جگہ نہیں لے سکتا۔ ہم اپنے ساتھیوں سے اپنے جذبات اور کھانسی چھپاتے ہیں اور ایک دوسرے کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہماری ساری توانائی صرف ہمارے مریضوں پر مرکوز ہے۔‘‘

Published: undefined

مارک ایوب نے لکھا، ''کچھ دن پہلے ہم مریض کو بلو بیگ سے ماسک کرتے تھے ، لیکن نئے کووڈ پروٹوکول میں کہا گیا ہے کہ ہمیں وائرل ذرات کی ایروسولائزیشن سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ تو میں اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں: 'کیا میں اپنی زندگی کی حفاظت کر سکوں گا؟‘ ايک اکتاليس سالہ مريض کی زندگی کو بچا نے کا فیصلہ کرتے ہوۓ میں نے اپنی زندگی کا خطرہ مول ليا اور بلو بیگ سے اسے ماسک کر دیا۔ ہم نے اپنے ہسپتال میں متعدد یونٹ بند کر دیے ہیں اور انہیں COVID انیس کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے وقف کر دیا ہے۔ ہم ان حصوں کو 'خفیہ غار‘ کہتے ہیں۔ ہر روز آئی سی یو میں کام کرتے ہوئے ہمیں کورونا کے ریضوں کے اوسطاﹰ 12 نئے کيسز نمٹانا ہوتے ہیں۔ انہیں ایک تاریک دالان سے نکال کر آئی سی یو تک پہنچانا ہوتا ہے۔ میں اپنا وہی ماسک لگاۓ ہوئے ہوں، جو میں کئی دنوں سے استعمال کر رہا ہوں۔ ہم اپنے گھٹتے ہوئے وسائل کو اخلاقی اور مؤثر طریقے سے کس طرح استعمال کريں؟ اس ہسپتال میں پہلے ہی وینٹیلیٹر ختم ہوچکے ہیں۔ ہم ہر کسی کی ویسی نگہداشت نہیں کرسکتے، جس کو کوئی مستحق ہوتا ہے۔ ایک دن میں متعدد بار فيصلے کی کٹھن گھڑی آتی ہے، جس ميں ہميں 40 سالہ مریض اور 80 سالہ مریض کے درمیان زندگی بچانے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ہم یہاں زندگی اور موت کے فیصلے کرنے پر اس ليے مجبور ہیں کیونکہ ہمارے بازار اور حکومتیں ٹوٹ چکے ہیں۔‘‘

Published: undefined

اسی قسم کے جذبات کا اظہار نارتھ کيرولائنا اور واشنگٹن ڈی سی کے ہسپتالوں ميں کام کرنے والے دیگر ڈاکٹروں نے بھی اپنے اپنے فيس بک پيج پر کیا ہے اور لکھا ہے کہ امريکی صدر ٹرمپ کو ملکی معیشت کو بچانے کی کوششوں کے بجائے انسانی جانیں بـچانے کے ليے ہر ممکنہ اقدامات کرنا چاہييں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined