قومی خبریں

کیا چیف جسٹس گوگوئی کی سبکدوشی سے قبل بابری مسجد پر فیصلہ ہو پائے گا؟

سماعت میں تیزی کے بعد اس قدیمی تنازعہ کے حل کی ایک امید تو ضرور نظر آ رہی ہے لیکن لوگوں کے دلوں میں یہ سوال بھی ہے کہ کیا 17 نومبر کو گوگوئی کی سبکدوشی سے پہلے اس پر کوئی حتمی فیصلہ سنایا جا سکے گا!

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی 5 رکنی آئینی بنچ کی طرف سے ایودھیا کے بابری مسجد معاملہ کی سماعت روزانہ ہو رہی ہے۔ سماعت میں تیزی کے بعد سات عشروں قدیمی تنازعہ کے حل کی ایک امید تو ضرورت نظر آ رہی ہے لیکن لوگوں کے دلوں میں یہ سوال بھی ہے کہ آیا 17 نومبر کو گوگوئی کی سبکدوشی سے پہلے اس پر کوئی حتمی فیصلہ سنایا جا سکے گا یا نہیں!

Published: 17 Aug 2019, 7:10 PM IST

واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے مقرر شدہ مفاہمتی پینل کے ذریعے ہندووں اور مسلمانوں کے مختلف فریقین کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد جسٹس رنجن گوگوئی نے اس معالہ میں ہفتہ کے تمام کام کے دنوں میں سماعت کرنے کا فیصلہ لیا۔

Published: 17 Aug 2019, 7:10 PM IST

یاد رہے، الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے 2010 میں ایودھیا میں 2.77 ایکڑ زمین کو تین فریقین سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اور رام للا کے درمیان یکساں طور پر تقسیم کرنے سے متعلق فیصلہ سنانے کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تھا۔ ایودھیا معاملہ میں رام جن بھومی کو شریک عرضی گزار کے طور پر شامل کیا گیا ہے اور یہ دعوی کیا گیا ہے کہ متنازعہ مقام کی 2.77 ایکڑ اراضی اسی کی ہے، جہاں بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تھا۔

Published: 17 Aug 2019, 7:10 PM IST

معاملہ سے وابستہ ایک وکیل نے کہا، ’’جب سے چیف جسٹس نے اس معاملہ کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہے، جب سے ان کے ریٹائر ہونے سے پہلے اس پر فیصلہ آنے کی امید نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی مدت کار کے دوران فیصلہ نہیں لے پاتے تو پھر معاملہ کو کسی دوسری بنچ کی طرف سے نئے سرے سے سنا جانا چاہئے، ایسا عموماً نہیں ہوتا۔ ‘‘

بنچ پہلی ہی 6 دنوں کی سماعت مکمل کر چکی ہے اور اب تک نرموہی اکھاڑا نے اپنی دلائل کو پورا کر لیا ہے۔ اب رام للا براجمان کے وکیل کے موقف کو سنا جا رہا ہے۔

Published: 17 Aug 2019, 7:10 PM IST

ایودھیا معاملہ پر سماعت کے چھٹے روز رام للا براج مان کے وکیل نے دعوی کیا کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے پختہ ثبوت موجود ہیں کہ مسجد کو پہلے سے قائم مندر کے کھنڈر پر بنایا گیا تھا۔ لہذا شرعیہ بھی اس تعمیر کو مسجد کے طور پر قبول نہیں کر سکتی۔

Published: 17 Aug 2019, 7:10 PM IST

جمعیۃ علما ہند کے پریس بیان کے مطابق جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس بوبڑے نے رام للا کے وکیل ایڈوکیٹ ودیاناتھن سے سوال کیا کہ آپ کے بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسجد پہلے سے تعمیر شدہ عمارت پر بنائی گئی تھی لیکن کیا وہ مذہبی عمارت (مندر)تھی ؟انہوں نے عدالت کو بتایا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں جسٹس ایس یو خان نے لکھا ہے کہ مسجد کی تعمیر پہلے سے تعمیر شدہ عمارت کے حصوں کو استعمال میں لیتے ہوئے بنائی گئی تھی لہذا اسے غیر شرعی مسجد نہیں کہا جاسکتا ۔

Published: 17 Aug 2019, 7:10 PM IST

جسٹس چندرچوڑنے کہا کہ اس تمام چیزیوں سے صرف یہ ثابت ہوتاہے کہ الگ الگ دو میں الگ الگ کلچرکے لوگ بسے ہوئے تھے اس لئے مختلف کلچر کی چیزیں مل رہی ہیں ۔اس سے وہاں پر کسی مندرکا ہونا آپ کوثابت کرنا ہوگا،چیف جسٹس نے رام للاکے وکیل سی ایس ودیاناتھن سے پوچھا کہ اب آپ اور کیا دلیل پیش کریں گے اس پر رام للا کے وکیل نے کورٹ کوبتایا کہ اب ہم گواہی کو پیش کریں گے اورپیرکو تین سے چارگھنٹے کے اندراپنی بحث مکمل کرسکتے ہیں ۔ واضح رہے کہ جمعہ کے روز بھی رام للا کے وکیل کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی پیر تک کے لئے ملتوی کردی۔

Published: 17 Aug 2019, 7:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 17 Aug 2019, 7:10 PM IST