
شعلوں میں گھری کرنول حادثہ کی شکار بس / آئی اے این ایس
آندھرا پردیش کے ضلع کرنول میں پیش آئے خوفناک بس حادثے سے زندہ بچ جانے والے مسافروں نے وہ لمحے یاد کر کے بتایا کہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔ حیدرآباد سے بنگلورو جا رہی وولوو بس میں جمعہ کی صبح اس وقت آگ لگ گئی جب وہ نیشنل ہائی وے-44 پر اولنڈاکونڈا کے قریب ایک دو پہیہ گاڑی سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں 20 افراد زندہ جل گئے جبکہ کئی زخمی ہوئے۔
Published: undefined
حادثے سے بچ جانے والی مسافر ہریکا نے اپنی لرزہ خیز داستان بیان کرتے ہوئے بتایا، ’’جب میری آنکھ کھلی تو بس پہلے ہی آگ میں گھر چکی تھی۔ کچھ ہی سیکنڈ میں شعلے پوری بس میں پھیل گئے۔ میں گھبراہٹ میں چیخی لیکن ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ کسی طرح بس کے پچھلے حصے میں ایک ٹوٹے ہوئے دروازے سے چھلانگ لگا کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوئیں۔ ہَرِکا نے کہا، ’’کودتے وقت مجھے چوٹ لگی لیکن کم از کم میں زندہ ہوں۔‘‘
ان کے مطابق حادثہ تقریباً صبح 3:30 بجے پیش آیا، جب زیادہ تر مسافر گہری نیند میں تھے۔ آگ لگنے کے بعد اندر اندھیرا اور دھواں بھر جانے سے لوگوں کو نہ باہر کا راستہ نظر آ رہا تھا اور نہ سانس لینا ممکن تھا۔ انہوں نے کہا، ’’سب لوگ چیخ رہے تھے، کچھ لوگ کھڑکیاں توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘
Published: undefined
ہریکا نے ایک اہم نکتہ یہ بھی اجاگر کیا کہ زیادہ تر سلیپر بسوں میں نشستوں پر پردے لگے ہوتے ہیں تاکہ مسافروں کو نجی جگہ مل سکے لیکن یہی پردے حادثے کے وقت رکاوٹ بن گئے۔ انہوں نے بتایا، ’’ہمیں معلوم ہی نہیں ہو رہا تھا کہ کون سی سیٹ پر کوئی ہے یا سب باہر نکلے بھی ہیں یا نہیں۔‘‘
اسی طرح حادثے سے بچنے والے ایک اور مسافر جینت کشواہا نے بتایا کہ آگ لگنے کے وقت مین ایگزٹ دروازہ بند تھا، جس کی وجہ سے مسافر اندر پھنس گئے۔ انہوں نے کہا ’’ہم نے پہلے سامنے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ آخرکار ہم پیچھے کی ایمرجنسی کھڑکی توڑنے میں کامیاب رہے۔‘‘
Published: undefined
جینت کے مطابق، ’’وہ کھڑکی کافی اونچی تھی، اس لیے باہر کودنے کے دوران کئی لوگ زخمی اور کچھ بے ہوش ہو گئے۔ کچھ مسافروں نے ڈرائیور کی سیٹ کے پاس والی کھڑکیاں توڑ کر جان بچائی لیکن سب کے پاس وہ موقع نہیں تھا۔‘‘ عینی شاہدین کے مطابق، بس میں آگ اس قدر تیزی سے بھڑکی کہ چند لمحوں میں شعلوں نے پورے ڈھانچے کو لپیٹ میں لے لیا۔ جو لوگ پچھلے حصے میں بیٹھے تھے، ان کے بچنے کے امکانات نسبتاً زیادہ رہے۔
Published: undefined
یہ حادثہ نہ صرف مسافروں کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک ہولناک تجربہ بن گیا۔ زندہ بچ جانے والے افراد اب بھی خوف کے عالم میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بس میں فائر سیفٹی کے مناسب انتظامات ہوتے یا ایمرجنسی دروازہ درست حالت میں ہوتا تو شاید اتنے بڑے جانی نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔
حکومت نے واقعے کی تفصیلی جانچ کا حکم دے دیا ہے، جبکہ ٹرانسپورٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ ایک بار پھر لمبی دوری کی نجی بسوں کی حفاظتی خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined