قومی خبریں

یو پی احتجاج: مظاہروں کے دوران 15 ہلاکتوں کی تصدیق، ہر سو دہشت کا ماحول

شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کے خلاف اتر پردیش بھر میں ہونے والے تشدد کے حوالہ سے یو پی پولیس کے آئی جی لاء اینڈ آرڈر پروین کمار نے ہفتہ کے روز مختلف اضلاع میں 15 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

لکھنؤ: شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کے خلاف جمعہ کے روز اتر پردیش بھر میں ہونے والے تشدد میں بڑے پیمانے پر جان و مال کے ضیاع کی اطلاع موصول ہو رہی ہے۔ یوپی پولیس کے آئی جی لا اینڈ آرڈر پروین کمار نے ہفتہ کے روز مختلف اضلاع میں 15 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، حالانکہ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ اموات پولیس کی گولی لگنے سے واقع ہوئی ہیں۔ پروین کمار نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد اس پر کچھ کہا جاسکتا ہے۔

پروین کمار نے کہا کہ مظاہروں کے دوران 253 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔نیز، تشدد برپا کرنے والے افراد کے خلاف انتہائی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فسادیوں کی املاک بھی ضبط کر لی جائے گی۔ دریں اثنا پولیس نے تاحال 705 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے مظفر نگر میں کچھ دکانوں کو سیل کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

Published: 21 Dec 2019, 9:11 PM IST

ضلع رامپور میں ہفتہ روز ایک مرتبہ پھر سے احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا اور عوام و پولیس آمنے سامنے آگئے۔ رامپور میں فائرنگ کے دوران ایک شخص کی موت ہو گئی جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔ رامپور کے علاوہ کانپور سے بھی تشدد کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ کانپور میں یتیم خانہ پولیس چوکی میں آگزنی کی بھی اطلاع ہے۔ ریاست کے دیگر اضلاع میں اکا دکا واقعات پیش آئے لیکن مجموعی طور پر حالات پرامن مگر کشیدہ رہے۔ حساس مقامات پر سیکورٹی اہلکار کا پہرہ رہا۔

وہیں گورنر آنندی بین پٹیل اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست کے شہریوں سے امن و امان کو قائم رکھنے اور کسی بھی بہکاوے یا اکساوئے میں نہ آنے کی اپیل کی۔ ادھر، وارانسی اور فیروزآباد سے موصول اطلاع کے مطابق شہر میں حالات کشیدہ لیکن پرامن ہیں۔ ان اضلاع میں جمعہ کے احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ریاست میں احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے امتحانات ملتوی کر دئے گئے ہیں تو وہیں سیکورٹی اہلکار کو شرپسند عناصر سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق تشدد پھوٹ پڑنے والے اضلاع میں حالات پرامن ہیں۔

Published: 21 Dec 2019, 9:11 PM IST

راجدھانی لکھنؤ میں جمعرات کو ہوئے تشدد میں املاک کو ہوئے نقصان کا پی ڈبلیو ڈی محکمے نے تخمینہ لگانا شروع کردیا ہے اور مصدقہ ذرائع سے نشان زد افراد جو اس تشدد میں ملوث تھے ان کے نام کی نوٹس جاری کی جا رہی ہے۔ تشدد میں ہوئے نقصان کی تلافی اس میں ملوث شرپسند عناصر سے کی جائے گی۔

ڈائرکٹر جنرل آف پولیس نے کہا کہ 19 دسمبر کو لکھنؤ میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں 218 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔جس میں چھ مغربی بنگال کے مالدہ کے رہنے والے ہیں۔ ڈی جی پی کے مطابق ان افراد کو بنگال سے خصوصی طور سے بلایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار افراد کے خلاف راسوکا کے تحت کاروائی کی جائےگی۔ پولیس کسی بھی بے قصور کو گرفتار نہیں کرے گی۔ ڈی جی پی کے مطابق ابھی تک اس معاملے میں پوری ریاست میں آٹھ ہزار افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔اور تقریبا ایک ہزار افرا کو گرفتار کیا گیا ہے۔

Published: 21 Dec 2019, 9:11 PM IST

گذشتہ روز اتر پردیش کے 20 اضلاع میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور پولیس نے 9 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ سنیچر کو پولیس نے 15 افراد کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تشدد میرٹھ میں برپا ہوا۔ یہاں پولیس فائرنگ میں 4 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے جبکہ 12 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 5 کی حالت تشویش ناک ہے۔ پولیس کا دعوی ہے کہ 6 پولیس اہلکار بھی زخمی ہیں۔

گذشتہ رات میرٹھ کے تاراپوری، لیساڑی گیٹ پر تشدد ہوا۔ اسلام آباد کے علاقے میں پولیس چوکی نذر آتش کر دی گئی۔ کئی بائیکوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ ہاپوڑ روڈ پر بھی مظاہرے کے دوران تشدد ہوا۔ بجنور میں بھی گزشتہ روز تشدد ہوا تھا جس میں چھ افراد زخمی ہو گئے۔ بجنور ضلع کے نہٹور قصبہ میں دو افراد کی موت ہو بھی واقع ہوئی۔

Published: 21 Dec 2019, 9:11 PM IST

سی پی آئی کے ترجمان اتل انجان کا کہنا ہے کہ ریاست اتر پردیش میں صورت حال انتہائی خوفناک ہو چکی ہے۔ ہر طرف خوف کا ماحول ہے۔ پولیس بربریت کا مظاہرہ کیا گیا۔

گذشتہ روز ہلاک ہونے والے نوجوانوں کی لاشوں کے بعد صورتحال ایک بار پھر کشیدہ ہوگئی ، اس دوران سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔دو دن قبل ، یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ نقصان کی تلافی کے لئے دیہاتیوں کی جائداد ضبط کرکے۔ مظفر نگر میں اس قسط میں آدھا درجن دکانیں سیل کردی گئیں۔

Published: 21 Dec 2019, 9:11 PM IST

تصویر سوشل میڈیا

ان مظاہروں کے دوران مقامی رہنماؤں نے مکمل خاموشی اختیار کی ہو ہے اور تمام شہروں کے احتجاج قیادت سے پاک ہیں۔ مظاہروں کے بعد سڑکیں پر خاموش طاری ہے۔ بازاروں میں بھیڑ نہیں ہے اور لوگ صرف ضرورت کا سامان لینے کے لئے ہی باہر نکل رہے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشانی مسافروں کو ہو رہی ہے کیوں کہ انہیں بس اڈوں پر بسیں نہیں مل رہی ہیں۔

Published: 21 Dec 2019, 9:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 21 Dec 2019, 9:11 PM IST