قومی خبریں

جموں و کشمیر: کارگل اور دراس میں دَفعہ 370 ہٹائے جانے کی مخالفت شروع

کارگل اور دراس میں بھی دفعہ 370 ہٹائے جانے کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ یہاں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے دو دن کی ہڑتال کا اعلان کیا ہے جسے دراس کی بی جے پی یونٹ نے بھی حمایت دینے کا اعلان کیا ہے۔

جموں و کشمیر میں دس ہزار اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات
جموں و کشمیر میں دس ہزار اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات 

دراس کے مقامی باشندوں اور لیڈروں میں بھی دفعہ 370 اور 35 اے ہٹائے جانے کو لے کر ناراضگی ہے۔ ساتھ ہی وہ نئے بنے مرکز کے ماتحت ریاست لداخ کے ساتھ دراس اور کارگل کو ملائے جانے کو لے کر بھی خوش نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں کارگل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بدھ اور جمعرات کو کارگل میں دو روزہ احتجاجی مظاہرہ اور بند کا اعلان کیا ہے۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 AM IST

مودی حکومت کے فیصلے کے خلاف بدھ کے روز ہڑتال کو دراس، کارگل، سانکو اور کارگل ضلع کے دوسرے علاقوں میں زبردست حمایت ملی۔ اس جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں سیاسی لیڈروں کے ساتھ کچھ مذہبی لیڈر بھی ہیں۔ حالانکہ بی جے پی کی کارگل یونٹ نے اس بند کی حمایت نہیں کی، لیکن دراس کی بی جے پی یونٹ اس بند کی حمایت میں کھل کر سامنے آئی ہے۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 AM IST

دراس میں بی جے پی لیڈر بلال احمد کا کہنا ہے کہ ’’ہم لداخ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ حکومت یا تو کارگل کو الگ مرکز کے ماتحت ریاست بنائے یا پھر ہمیں جموں و کشمیر کے ساتھ رہنے دے۔ جموں و کشمیر سے ہمارے کافی رشتے ہیں جب کہ لداخ سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ وہاں کے اور ہمارے رسم و رواج، رہن سہن اور کھانے پینے میں بھی بہت فرق ہے۔ ہماری فیملی کی بہت سی خواتین کی شادی کشمیر میں ہوئی ہے۔ کارگل یوں بھی کشمیر کے نزدیک ہے۔‘‘

Published: 29 Aug 2019, 9:10 AM IST

دوسری طرف لداخ آٹونومس ہل ڈیولپمنٹ کاؤنسل کے غلام نقوی کہتے ہیں کہ ’’ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے اور وہ یہ کہ ہم لداخ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ سیاسی پارٹی سماج اور ریاست میں سے ہی آتے ہیں، اگر ریاست کا ہی احساس نہیں ہوگا تو پھر سیاسی پارٹی کا بھی کیا کرنا؟ ہمارے لیڈر دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے ہی نظر بند ہیں۔ ہم آسانی سے پیچھے ہٹنے والے لوگ نہیں ہیں۔ ہم مرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ غلام نقوی نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور لداخ میں کونسلر ہیں۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 AM IST

نقوی نے انصاف کے لیے ملک کے قانون کے تحت اس معاملے میں لڑائی کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم کسی بھی مرکز کے ماتحت ریاست کا حصہ ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ کیا کوئی حکومت اس طرح قانون بدلتی ہے۔ لوگوں کو گھروں میں بند کر انھوں نے ایسا کیا ہے۔‘‘

Published: 29 Aug 2019, 9:10 AM IST

بلال احمد بھی بی جے پی لیڈر ہونے کے باوجود 35 اے ہٹائے جانے کے مودی حکومت کے فیصلے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 35 اے ہٹا کر حکومت نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’جس طرح سے لیڈروں کو نظر بند کیا گیا ہے وہ شرمناک ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انھوں نے طاقت کے زور پر ایسا کیا ہے۔‘‘

Published: 29 Aug 2019, 9:10 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 AM IST