قومی خبریں

جوتے پر ’ٹھاکر‘ لکھنے سے پیدا ہوا ہنگامہ، پوچھ تاچھ کے بعد حراست میں لیے گئے ناصر کو ملی آزادی

بلند شہر پولس نے بتایا کہ تنازعہ بڑھنے کے امکان کو دیکھتے ہوئے پوچھ تاچھ کے لیے نوجوان کو تھانہ لایا گیا تھا، اسے گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ پوچھ تاچھ کے بعد نوجوان کو منگل کے روز چھوڑ دیا گیا۔

علامتی، تصویر آئی اے این ایس
علامتی، تصویر آئی اے این ایس 

اتر پردیش کے بلند شہر میں پیر کے روز سے ہی جوتے پر ’ٹھاکر‘ لکھ کر فروخت کیے جانے کو لے کر ہنگامہ برپا ہے۔ اس سلسلے میں ناصر نامی جوتا دکاندار کو پولس نے حراست میں لیا تھا اور مختلف دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کر لیے گئے تھے، لیکن اب یو پی پولس نے ناصر کو منگل کے روز ہی چھوڑ دیئے جانے کی بات کہی ہے۔ ساتھ ہی پولس نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ ناصر کے خلاف دفعہ 153 اے (مذہب اور ذات پات پر مبنی دشمنی کو فروغ دینا) کا جو مقدمہ درج کیا گیا تھا، وہ جانچ میں غلط ثابت ہوا ہے۔ ساتھ ہی بلند شہر پولس کے ایک اعلیٰ افسر کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 323 اور 504 کے تحت جانچ ہو رہی ہے۔

Published: undefined

بلند شہر پولس کے آفیشیل ٹوئٹر ہینڈل سے آج صبح جو ٹوئٹ کیا گیا ہے اس میں لکھا گیا ہے کہ ’’تھانہ گلاوٹی علاقہ کے ایک شخص کی تحریر پر ایک شخص کے ذریعہ ذات پر مبنی لفظ لکھے جوتے فروخت کرنے اور منع کرنے پر مار پیٹ کرنے کے تعلق سے تھانہ گلاوٹھی پر تعزیرات ہند کی دفعہ 153اے/323، 504 کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔ تنازعہ بڑھنے کے امکان کو دیکھتے ہوئے پوچھ تاچھ کے لیے نوجوان کو تھانہ لایا گیا تھا، اسے گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ پوچھ تاچھ کے بعد نوجوان کو کل ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اب تک کی جانچ میں دفعہ 153 اے کا جرم ہونا نہیں پایا گیا۔ معاملہ مار پیٹ کا ہونا پایا گیا ہے۔ آگے کی قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘

Published: undefined

یہاں قابل غور ہے کہ ناصر کا ایک ویڈیو بھی پیر کے روز سامنے آیا تھا جس کو ہندو تنظیم کے کارکنان نے ہی بنایا تھا اور اس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ٹھاکروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور دو طبقات کے درمیان تلخی پیدا کرنے کی نیت سے ایسا کر رہا ہے۔ حالانکہ ویڈیو میں ناصر بار بار یہ کہتا ہوا نظر آیا کہ وہ جوتے فروخت کرتا ہے، اسے بناتا نہیں ہے۔ اس کے باوجود ناصر اور 40 سالوں سے اس طرح کا جوتا بنانے والی کمپنی کے خلاف گلاوٹھی تھانہ میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔

Published: undefined

بتایا جاتا ہے کہ پیر کے روز ہنگامہ اس وقت شروع ہوا تھا جب ہندو تنظیم سے تعلق رکھنے والا ایک لیڈر ناصر کی دکان پر جوتا خریدنے پہنچا اور جب اس کی نظر جوتے کی سول (نچلے حصے) پر ’ٹھاکر‘ لکھے لفظ پر پڑی تو وہ ناراض ہو گیا اور ناصر سے سوال جواب کرنے لگا۔ اس دوران لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہو گئی اور کئی لوگوں نے اس کی ویڈیو بھی بنا لی۔ کچھ خبروں کے مطابق ناصر کے خلاف شکایت کرنے والے شخص کا نام وشال چوہان ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جب جوتے پر ٹھاکر لکھے جانے کی مخالفت کی گئی تو دکاندار نے اس کے ساتھ بدتمیزی اور مار پیٹ کی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined