قومی خبریں

اراولی کی نئی تعریف اور مائننگ پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس، پیر کو چیف جسٹس کی بنچ میں سماعت

اراولی کی نئی 100 میٹر تعریف اور مائننگ کے اثرات پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا۔ پیر کو چیف جسٹس کی بنچ سماعت کرے گی، جس سے اراولی کے تحفظ کی حدیں طے ہو سکتی ہیں

<div class="paragraphs"><p>اراولی کی نئی تعریف اور مائننگ پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس</p></div>

اراولی کی نئی تعریف اور مائننگ پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس

 

اراولی پہاڑی سلسلے کی نئی تعریف، اس کے وجود اور وہاں جاری مائننگ سرگرمیوں سے متعلق معاملہ پیر، 29 دسمبر کو ایک فیصلہ کن موڑ لے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس حساس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اراولی کے تحفظ کے لیے سرگرم ماحولیاتی کارکنوں اور سماجی تنظیموں کے لیے یہ پیش رفت امید کی ایک مضبوط کرن سمجھی جا رہی ہے، کیونکہ حالیہ دنوں میں ’100 میٹر‘ کی نئی تعریف نے شدید تنازعہ کو جنم دیا ہے۔

Published: undefined

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری فہرستِ سماعت کے مطابق اس معاملے کی سماعت جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کرے گی۔ بنچ میں جسٹس جے کے مہیشوری اور جسٹس اے جی مسیح بھی شامل ہوں گے۔ کیس کا عنوان ’ڈیفینیشن آف اراولی ہلز اینڈ ریجنز اینڈ اینسلری ایشوز‘ یعنی ’اراولی پہاڑیوں اور پہاڑی سلسلے کی تعریف اور اس سے جڑے دیگر امور‘ رکھا گیا ہے۔

Published: undefined

یہ تنازعہ اس نئی تعریف کے گرد گھومتا ہے جو مرکز نے سپریم کورٹ میں پیش کی تھی، جس کے مطابق صرف ان پہاڑیوں یا ارضی ساختوں کو اراولی مانا جائے جن کی اونچائی مقامی سطحِ زمین سے 100 میٹر یا اس سے زیادہ ہو۔ ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اگر یہ تعریف قبول کر لی گئی تو اراولی کے نچلے حصے، چھوٹی پہاڑیاں اور رِجز قانونی تحفظ سے باہر ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں بے روک ٹوک مائننگ اور تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہو سکتی ہیں۔

Published: undefined

ماہرین نے عدالت کی توجہ دلائی ہے کہ اراولی کو محض اونچائی کے پیمانے سے نہیں، بلکہ اس کے پورے ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اگرچہ مرکز نے حالیہ عرصے میں اراولی میں نئی مائننگ لیز پر مکمل پابندی عائد کی ہے، تاہم پرانی اور جاری کانوں کے مستقبل پر اب بھی سوالیہ نشان قائم ہے۔ اسی پس منظر میں پیر کی سماعت سے یہ طے ہونے کی توقع ہے کہ مستقبل میں اراولی کا کتنا حصہ حقیقی معنوں میں تحفظ یافتہ رہے گا۔

Published: undefined

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اراولی پہاڑی سلسلہ محض پہاڑ نہیں بلکہ شمالی ہندوستان کے لیے قدرتی ڈھال ہے۔ مطالعات بتاتے ہیں کہ اراولی تھار ریگستان سے اٹھنے والی ریتلی آندھیوں کو دہلی اور ہریانہ کی سمت بڑھنے سے روکتا ہے، زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے اور دہلی-این سی آر کی فضا کو صاف رکھنے میں ’گرین لنگس‘ کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کی سماعت نہ صرف قانونی بلکہ ماحولیاتی مستقبل کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined