قومی خبریں

اے ایم یو اقلیتی درجہ:جب جسٹس چندر چوڑ  نے کہا کہ حکومت کو ترمیم کے ساتھ رہنا پڑے گا

بینچ کی جانب سے چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ حکومت کے پاس ایک آپشن ہے کہ ترمیم کا راستہ اختیار کرے اورترمیم شدہ ایکٹ کو دوبارہ تبدیل کریں۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

 

سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا اقلیتی درجہ بحال کرنے والے 1981 کے ترمیم شدہ ایکٹ پر قائم نہ رہنے کے مرکزی حکومت کے موقف پر بدھ کو حیرت کا اظہار کیا۔

Published: undefined

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت والی سات ججوں کی بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے پوچھا کہ کیا انہوں نے (حکومت) 1981 میں پارلیمنٹ کی طرف سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ میں کی گئی ترمیم کو قبول کیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ نہیں۔
بنچ نے مہتا سے پوچھا، ''یہ پارلیمنٹ کی ترمیم ہے۔ کیا حکومت اسے قبول کر رہی ہے؟‘‘
مسٹر مہتا نے جواب دیا، "میں (حکومت) متفق نہیں ہوں۔"
سالیسٹر جنرل کے جواب سے حیران ہو کر بنچ نے پوچھا، ''آپ پارلیمنٹ کی ترمیم کو کیسے قبول نہیں کر سکتے؟ پارلیمنٹ ہندوستانی یونین کے تحت ایک ابدی ناقابل تنسیخ ادارہ ہے۔ گرچہ کوئی بھی حکومت یونین آف انڈیا کے مدے کی نمائندگی کرتی ہو، پارلیمنٹ کا مدا ابدی، ناقابل تقسیم اور ناقابل تنسیخ ہے۔

Published: undefined

بنچ کی جانب سے چیف جسٹس نے کہا، ’’اور میں حکومت ہند کو یہ کہتے ہوئے نہیں سن سکتا کہ پارلیمنٹ کی طرف سے جو ترمیم کی گئی، ’میں اس پر قائم نہیں ہوں‘۔جسٹس چندر چوڑ نے مہتا سے کہا، ''آپ کو اس ترمیم کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ آپ کے پاس ایک آپشن ہے کہ ترمیم کا راستہ اختیار کریں اورترمیم شدہ ایکٹ کو دوبارہ تبدیل کریں۔

Published: undefined

سالیسٹر جنرل نے اپنی طرف سے کہا، ''میں 'اے' بمقابلہ 'بی' کے معاملے پر بحث نہیں کر رہا ہوں۔ میں سات ججوں پر مشتمل آئینی بنچ کے سامنے آئینی سوالات کا جواب دے رہا ہوں۔ زیر غور ترمیم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

Published: undefined

مسٹر مہتا نے بنچ کے سامنے کہا، "ایک فیصلے میں یہ اعلان کیاگیا ہے کہ یہ 'اے بی سی ڈی' کی بنیاد پر غیر آئینی ہے اور ایک لاء آفیسر کے طور پر یہ کہنا میرا حق اور فرض ہے کہ یہ نظریہ درست معلوم ہوتا ہے۔"

Published: undefined

سپریم کورٹ 2006 کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اے ایم یو کی عرضی پر غور کر رہی تھی جس میں 1981 کی ترمیم کو غیر آئینی قرار دیا گیاتھا۔سال 1981 میں اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے اقلیتی حیثیت کو بحال کیا گیا تھا۔

Published: undefined

2005 میں اے ایم یو نے اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کورسس میں مسلم طلباء کے لیے 50 فیصد سیٹیں محفوظ کی تھیں، جسے الہ آباد ہائی کورٹ نے منسوخ کر دیا تھا۔
سال 2006 میں مرکز اور اے ایم یو نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ 2016 میں مرکزی حکومت نے یہ کہتے ہوئے اپنی اپیل واپس لے لی کہ وہ یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کو قبول نہیں کرتی ہے۔ بارہ فروری 2019 کو عدالت نے کیس کو سات ججوں کی بنچ کو بھیج دیاتھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined