سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمٰن برق / آئی اے این ایس
الہ آباد: الہ آباد ہائی کورٹ نے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق کو سنبھل تشدد کیس میں عبوری راحت فراہم کی ہے۔ عدالت نے منگل کو حکم دیا کہ سنبھل کے خصوصی جج (ایم پی/ایم ایل اے) کی عدالت میں ان کے خلاف چل رہی کارروائی پر اگلے حکم تک روک لگائی جائے۔
یہ معاملہ 24 نومبر 2024 کے اس سانحے سے جڑا ہے، جب سنبھل کی تاریخی شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران اچانک کشیدگی بھڑک اٹھی تھی۔ تشدد میں پانچ افراد ہلاک اور 20 پولیس اہلکاروں سمیت کئی لوگ زخمی ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق اس دوران پتھراؤ، آگ زنی اور توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے، جن میں کئی سرکاری گاڑیاں بھی نقصان کا شکار ہوئیں۔
Published: undefined
سنبھل پولیس نے اس واقعے کے سلسلے میں رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق کو مرکزی ملزم کے طور پر نامزد کیا اور ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے تشدد سے چند دن قبل مسجد میں اشتعال انگیز تقریر کی تھی، جس کے نتیجے میں ماحول خراب ہوا۔ پولیس کی ایف آئی آر میں مقامی ایم ایل اے اقبال محمود کے بیٹے سہیل اقبال کا نام بھی شامل ہے۔
تاہم برق نے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ واقعے کے وقت سنبھل میں موجود ہی نہیں تھے بلکہ بنگلورو میں تھے۔ برق نے عدالت میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ جیسے ہی انہیں ایف آئی آر کے بارے میں خبر ملی، وہ دہلی میں ہی رُک گئے اور مقامی لوگوں سے رابطہ کر کے حالات کو بگڑنے سے روکنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کمیونٹی ممبران سے امن و سکون قائم رکھنے کی اپیل کی تھی۔
Published: undefined
ایم پی نے اپنی عرضداشت میں کہا ہے کہ اگر ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تو انہیں ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ برق نے یہ بھی کہا کہ یہ مقدمہ سیاسی انتقام کا حصہ ہے اور انہیں اور ان کی پارٹی کو بدنام کرنے کے مقصد سے یہ کارروائی کی جا رہی ہے۔
ہائی کورٹ کے جسٹس سمیر جین کی سنگل بنچ نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے عبوری ریلیف فراہم کی اور کہا کہ اگلے حکم تک ماتحت عدالت میں چل رہی کارروائی پر روک رہے گی۔ اس فیصلے کو برق اور ان کے حامیوں نے بڑی راحت قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ یہ کشیدگی اس وقت بڑھی جب ہندو فریق کے سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو مندر قرار دینے کے دعوے کے بعد وہاں کا سروے کرنے کے لیے ایک ٹیم پہنچی تھی۔ اس تنازعے کے بعد ماحول انتہائی حساس ہو گیا اور آخرکار پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز