قومی خبریں

نئی سرکاری تعریف سے اراولی کی 90 فیصد پہاڑیاں خارج! جے رام رمیش کا سخت اعتراض، شدید ماحولیاتی جھٹکا قرار دیا

جے رام رمیش نے کہا ہے کہ حکومت کی نئی تعریف اراولی کی 90 فیصد پہاڑیوں کو سرے سے ختم کر دے گی، جس سے ماحول اور عوامی صحت پر سنگین اثرات پڑیں گے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا

<div class="paragraphs"><p>جے رام رمیش </p></div>

جے رام رمیش

 

کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے اراولی سے متعلق مرکزی حکومت کی نئی تعریف پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے ماحولیات کے لیے شدید جھٹکا قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایکس پوسٹ میں کہا کہ وزارتِ ماحولیات نے سپریم کورٹ کو جو نئی تکنیکی تعریف بھیجی ہے، اس کے تحت اراولی کی تقریباً 90 فیصد پہاڑیاں سرے سے خارج کر دی گئی ہیں، جس کا نتیجہ دہائیوں پر محیط ماحولیاتی نقصان کی شکل میں سامنے آئے گا۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ اراولی دہلی، ہریانہ، راجستھان اور گجرات میں پھیلا ہوا ایک طویل پہاڑی سلسلہ ہے جو نہ صرف صدیوں سے قدرتی رکاوٹ کے طور پر کام کرتا ہے بلکہ دھول- خصوصاً تھار اور راجستھان کی سخت اور خشک ہواؤں کو شمال اور مشرق کی سمت میں جانے سے روکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ سلسلہ زیرِ زمین پانی کے ذخائر، زراعت، جنگلاتی حیات اور این سی آر کے ہوا کے معیار کے لیے بنیادی کردار ادا کرتا ہے مگر گزشتہ برسوں میں کان کنی، تعمیراتی سرگرمیوں اور غیر قانونی تجاوزات نے اسے بری طرح کمزور کر دیا ہے۔

جے رام رمیش کے مطابق حکومت نے یہ کہہ کر نئی تعریف پیش کی ہے کہ اس سے غیر قانونی کان کنی پر قابو پانے میں مدد ملے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی پہاڑی کو اراولی مانا ہی نہیں جائے گا تو اس کی قانونی حفاظت بھی ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس نئی تعریف کے نتیجے میں اراولی کے بڑے حصے میں کھلی کان کنی، تعمیرات اور زمینی استعمال میں تبدیلی کا راستہ کھل سکتا ہے۔ ان کے بقول یہ نہ صرف ایک ماحولیاتی سانحہ ثابت ہوگا بلکہ عوامی صحت اور روزگار پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ نیک نیتی کے نام پر لیا گیا ہے مگر اس کے اثرات انتہائی تباہ کن ثابت ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پر فوری نظرثانی ضروری ہے تاکہ اراولی کا قدرتی ڈھانچہ بچایا جا سکے اور دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں آلودگی کی صورتحال مزید بدتر نہ ہو۔

واضح رہے کہ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے 20 نومبر کو وزارتِ ماحولیات کے ایک پینل کی سفارشات منظور کیں جن میں اراولی کو پہچاننے کے لیے دو اہم معیارات طے کیے گئے ہیں: کم از کم 100 میٹر بلندی، کم از کم 3 ڈگری ڈھلوان۔

Published: undefined

ماہرین کے مطابق ان دونوں معیارات کے باعث اراولی کی زیادہ تر نچلی پہاڑیاں فہرست سے باہر ہو جائیں گی۔ رپورٹ کے مطابق راجستھان کے 34 میں سے زیادہ تر اضلاع میں اراولی کی جو پہاڑیاں ہیں، وہ 100 میٹر سے کم بلندی رکھتی ہیں اور انہی پہاڑیوں کی وجہ سے این سی آر میں دھول کا پھیلاؤ رک جاتا ہے۔ اگر انہیں اراولی نہ مانا جائے تو ان کے علاقوں میں کان کنی اور تعمیراتی سرگرمیوں کی اجازت مل سکتی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر کسی پہاڑی کی بلندی 100 میٹر ہو بھی جائے مگر اس کے آس پاس کا علاقہ اس سے زیادہ اونچا ہو تو اسے بھی اراولی نہیں سمجھا جائے گا۔ ماہرین نے اسے غیر منطقی اور ماحولیاتی حقیقت سے دور قرار دیا ہے، کیونکہ اراولی کی اصل اہمیت اس کی اونچائی نہیں بلکہ اس کی جغرافیائی پوزیشن اور رکاوٹ کے طور پر کردار ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined