تصویر سوشل میڈیا
مدھیہ پردیش کی ڈاکٹر ہری سنگھ گوڑ سنٹرل یونیورسٹی، ساگر نے اپنے 33ویں جلسہ تقسیم اسناد میں متنازع ہندو پیشوا جگدگرو سوامی رام بھدراچاریہ کو اعزازی ڈی لٹ کی ڈگری دینے کا اعلان کیا ہے۔ یونیورسٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ فیصلہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی منظوری کے بعد کیا گیا ہے لیکن اس اعلان کے فوراً بعد یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ اور سماجی کارکنوں نے سخت احتجاج شروع کر دیا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ رام بھدراچاریہ ایک متنازع شخصیت ہیں جو اپنے ذات پات پر مبنی بیانات، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، بدھ مت اور دلت برادریوں کے خلاف مبینہ توہین آمیز تبصروں کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے فرد کو اعزازی ڈگری دینا یونیورسٹی کی علمی اور اخلاقی ساکھ کے خلاف ہے۔ احتجاج کرنے والوں نے الزام عائد کیا کہ رام بھدراچاریہ نے ایک بار کہا تھا کہ جو لوگ بھگوان رام کی عبادت نہیں کرتے وہ ’چمار‘ ہیں، جو ایک توہین آمیز ذات پات کا حوالہ ہے۔
Published: undefined
یہ پہلا موقع ہے کہ 79 سالہ یونیورسٹی کسی کو اعزازی ڈی لِٹ کی ڈگری دے رہی ہے۔ یونیورسٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر نیلما گپتا نے ڈیڑھ ماہ قبل صدر جمہوریہ سے اس کی اجازت طلب کی تھی۔ جلسہ تقسیم اسناد کی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں ہوا ہے۔
رام بھدراچاریہ ایک سنسکرت اسکالر، شاعر، مصنف اور کتھا واچک ہیں۔ نابینائی کے باوجود وہ 22 زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور انہوں نے چار بڑے رزمیہ منظوم کتب تصنیف کی ہیں۔ انہیں 2015 میں ہندوستان کے دوسرے بڑے سول اعزاز 'پدم وبھوشن' سے نوازا گیا تھا۔ ان کے عقیدت مندوں میں وزیر اعظم نریندر مودی اور باگیشور دھام کے متنازع مذہبی پیشوا دھیرندر شاستری بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
تاہم، ان کی شخصیت ہمیشہ سے تنازع کا شکار رہی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ رام بھدراچاریہ کی تقاریر معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہیں اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ رام بھدراچاریہ نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ایک بیان پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ "جب اقتدار نہیں تھا تو ہر مسجد میں مندر ڈھونڈتے تھے، اب اقتدار میں آ کر کہہ رہے ہیں کہ نہ ڈھونڈو۔"
احتجاج کرنے والوں نے یاد دلایا کہ ڈاکٹر ہری سنگھ گوڑ، جن کے نام پر یہ یونیورسٹی ہے، ایک ترقی پسند مفکر، ماہر قانون اور سماجی انصاف کے علمبردار تھے۔ انہوں نے دلتوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کیا اور تعلیمی مواقع کو عام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ایسے میں ایک متنازع مذہبی پیشوا کو اعزازی ڈگری دینا یونیورسٹی کی بنیادی اقدار اور بانی کی وراثت کی توہین کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا ہے اور جلسہ تقسیم اسناد کی تاریخ جلد ہی طے کی جائے گی۔ تاہم، احتجاجی مظاہروں نے معاملے کو نیا رخ دے دیا ہے اور سماجی حلقوں میں اس فیصلے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined