فائل تصویر آئی اے این ایس
جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے 25 معروف قومی و بین الاقوامی مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد کیے جانے کے ایک دن بعد پولیس نے وادی بھر میں ان کتابوں کی ضبطی کے لیے وسیع پیمانے پر چھاپہ ماری کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
Published: undefined
یہ کارروائیاں 5 اگست کو جاری کردہ محکمہ داخلہ کے پرنسپل سکریٹری چندرکر بھارتی کے ایک حکم نامے کے بعد عمل میں آئیں، جس میں کہا گیا کہ ان کتابوں میں ایسی مواد موجود ہے جو ملک کی خودمختاری، سالمیت اور یکجہتی کے لیے خطرہ ہے۔ حکم نامے میں بھارتیہ نیایہ سنہیتا 2023 کی دفعات 152، 196 اور 197 کے تحت کارروائی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
Published: undefined
پابندی عائد کی گئی کتابوں میں مشہور ماہرِ آئین اے جی نورانی کی "دی کشمیر ڈسپیوٹ 1947-2012"، سمنترہ بوس کی "کشمیر ایٹ دی کراس روڈز"، دیو دت دیو داس کی "ان سرچ آف آ فیوچر"، ارون دھتی رائے کی "آزادی"، انورادھا بھسین کی "اے ڈسمینٹلڈ اسٹیٹ"، طارق علی، پنکج مشرا و دیگر کی "کشمیر: دی کیس فار فریڈم"، کرسٹوفر سنڈن کی "انڈیپینڈنٹ کشمیر" اور امام حسن البنا کی "مجاہد کی اذان" شامل ہیں۔
Published: undefined
پولیس نے سری نگر، اننت ناگ، گاندربل، کولگام، اونتی پورہ سمیت کئی اضلاع میں کتب فروشوں، پبلیشرز اور اشاعتی اداروں پر چھاپے مارے، جہاں ان کتابوں کو ضبط کر کے دکانداروں کو آئندہ ایسی کتابیں رکھنے یا بیچنے سے خبردار کیا گیا۔ پولیس نے واضح کیا کہ یہ کارروائیاں امن عامہ کے تحفظ اور قانونی دائرے میں کی جا رہی ہیں۔ پولیس کے مطابق، دکانداروں کو قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سنگین نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے، اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
Published: undefined
اس اقدام پر کشمیری سیاست دانوں اور دانشور حلقوں کی جانب سے شدید تنقید سامنے آئی ہے۔پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کتابوں پر پابندی کو تاریخ کو مٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے کہا’جمہوریت خیالات کے آزادانہ تبادلے سے پھلتی پھولتی ہے۔ کتابوں پر پابندی تاریخ کو مٹا نہیں سکتی، بلکہ تقسیم اور بیگانگی کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔ سنسرشپ خیالات کو دباتی نہیں بلکہ ان کی گونج کو بڑھاتی ہے۔‘
Published: undefined
نیشنل کانفرنس کے ایڈیشنل جنرل سکریٹری شیخ مصطفیٰ کمال نے اسے غیر سنجیدہ، افسوسناک اور جمہوری قدروں کے منافی قدم قرار دیتے ہوئے کہاکہ’ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کتابوں میں ایسی کیا بات ہے جس سے اتنا خوف محسوس کیا جا رہا ہے۔ اگر واقعی حالات معمول پر ہیں تو سنسرشپ کا سہارا کیوں لیا جا رہا ہے؟‘انہوں نے مزید کہا کہ’تاریخ گواہ ہے کہ کتابوں پر پابندیاں ان کی مقبولیت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ جو خیالات دبا دیے جائیں، وہی زیادہ شدت سے عوامی شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔‘
Published: undefined
حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے کے سربراہ اور میر واعظ کشمیر مولوی عمر فاروق نے کتابوں پر پابندی کو "تاریخی سچائیوں کو مٹانے کی ناکام کوشش" قرار دیتے ہوئے کہا:’یہ فیصلہ ان لوگوں کی غیر محفوظ ذہنیت اور تنگ نظری کو ظاہر کرتا ہے جو ایک طرف تو کتاب میلہ منعقد کرتے ہیں، اور دوسری طرف سچ لکھنے والوں کی کتابیں ضبط کرتے ہیں۔‘
Published: undefined
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے بھی شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:’یہ فیصلہ جمہوری حقوق اور علمی آزادی پر ایک آمرانہ حملہ ہے۔ خاص طور پر اُس دن جب آرٹیکل 370 کے خاتمے کی چھٹی برسی منائی جا رہی ہے، یہ عمل کشمیریوں کے ساتھ ایک اور غیر منصفانہ سلوک کی علامت ہے۔‘سی پی آئی (ایم) نے اپنے بیان میں کہا کہ ایسی کتابوں پر پابندی جنہیں سپریم کورٹ نے خود حوالہ جات میں استعمال کیا ہو، جمہوریت کے اصولوں اور آزادیِ اظہارِ رائے کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined