قومی خبریں

’جن کو اپنوں نے چھوڑ دیا، ہم نے ان کا آخر تک ساتھ نبھایا‘ چتِا جلانے والے ’چنڈال‘ کی داستان

کورونا بحران کے بارے میں بات کرنے پر رمیش کہتے ہیں ’’ہم ذاتی طور پر ٖخود ہی اس قدر پریشان ہیں کہ کورونا اور کیا پریشان کرے گا! کورونا ہمارے مسائل کے سامنے ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے۔

بجنور میں گنگا بیراج پر موجود شمشان گھاٹ / تصویر آس محمد
بجنور میں گنگا بیراج پر موجود شمشان گھاٹ / تصویر آس محمد 

اتر پردیش کے اتراکھنڈ ریاست سے ملحقہ ضلع بجنور کے گنگا بیراج کے شمشان گھاٹ پر عموماً 8 سے 10 لاشیں ہر دن پہنچتی ہیں۔ زمانہ قدیم سے رمیش والمیکی کا کنبہ ان لاشوں کی آخری رسومات ادا کرتا رہا ہے۔ چھپن سالہ رمیش والمیکی ہم سے بات کرتے ہوئے ایک فاصلہ پر کھڑے ہوتے ہیں اور اپنا چہرہ کپڑے سے ڈھانپ لیتے ہیں۔ رمیش کہتے ہیں کہ انہیں یہاں رمیش چنڈال کہا جاتا ہے۔ وہ گزشتہ 40 سال سے یہاں پہنچنے والی لاشوں کو چتا میں نذر آتش کر رہے ہیں۔ ان سے پہلے ان کے والد اور والد کے والد بھی یہی کام کرتے تھے، تاہم اب ان کا بیٹا یہ کام نہیں کرنا چاہتا، وہ ایک بینڈ گروپ میں باجہ بجانے کا کام کرتا ہے۔ رمیش کا کہنا ہے کہ ان کے کنبہ اور پڑوس کے 7 لوگ یہ کام کرتے ہیں، وہ باری باری سے یہ کام کرتے ہیں۔ عام طور پر اس کام کے 100 سے 200 روپے حاصل ہوتے ہیں۔ رامیش اس کام کو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر گزشتہ دنوں رمیش کے ایک بیٹے کی موت ہو گئی اور وہ پھر سے مجبور ہو گئے۔

Published: 27 Feb 2021, 5:11 PM IST

کورونا بحران کے بارے میں بات کرنے پر رمیش کہتے ہیں ’’ہم ذاتی طور پر ٖخود ہی اس قدر پریشان ہیں کہ کورونا اور کیا پریشان کرے گا! کورونا ہمارے مسائل کے سامنے چھوٹا سا مسئلہ ہے۔ اب تو کورونا سے جان گنوانے والے افراد کی لاشیں بھی نہیں آ رہی، پھر بھی 20-25 لاشیں یہاں آ چکی ہیں۔ مگر کورونا کے وقت یہ ضرور سمجھ میں آ گیا کہ کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔‘‘

Published: 27 Feb 2021, 5:11 PM IST

رمیش نے کہا ’’کورونا سے جن لوگوں کی موت ہو جاتی تھی ان کے اہل خانہ علیحدہ گاڑیوں میں آتے تھے اور کئی بار تو کوئی قریبی آتا ہی نہیں تھا۔ اسپتال کے اہلکار ہی آتے اور لاش کو چھوڑ کر چلے جاتے۔ سب کچھ ہم نے کیا۔ وہ پلاسٹک بیگ میں لپیٹ کر لاش کو لاتے تھے اور نیچے زمین پر چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ لاش کو ہم ہی نذر آتش کرتے تھے۔

Published: 27 Feb 2021, 5:11 PM IST

رمیش کہتے ہیں کہ ’’چتا جلانے کے عوض ملنے والے روپے بھی لوگ زمین پر رکھ کر چلے جاتے تھے، جنہیں ہم ان کے جانے کے بعد اٹھا لیتے تھے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کوئی چھونا نہیں چاہتا، لیکن کورونا کے دور میں تو لوگ اپنے سگوں کو بھی چھونے سے خوف کھاتے ہیں۔‘‘

Published: 27 Feb 2021, 5:11 PM IST

رمیش کہتے ہیں کہ ’’اچھوت ہونا کیا ہوتا ہے شاید اب کچھ لوگوں کے سمجھ آیا ہوگا۔ ہمیں تو اس طرح کا بھید بھاؤ برداشت کرنے کی عادت ہے، کورونا کے دور میں حالانکہ یہ اور بھی شدید ہو گیا تھا۔ لیکن پھر بھی ہم اپنے فرض کی انجام دہی سے پیچھے نہیں ہٹے۔‘‘

Published: 27 Feb 2021, 5:11 PM IST

دنیا بھر میں کورونا کی وبا ایک شدید بحران بن کر ٹوٹ پڑی اور ہندوستان بھی اس سے کافی متاثر ہوا۔ یہاں کئی طبقے ایسے ہیں جن سے ہزاروں سالوں سے سماجی فاصلہ برقرار رکھا جاتا ہے لیکن کورونا کی وبا کے سبب ہر کوئی ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ بنا کر چلنے پر مجبور ہو گیا اور شمشان گھاٹ اور قبرستان میں کام کرنے والے لوگ تو سماج سے کٹ کر ہی رہ گئے۔

Published: 27 Feb 2021, 5:11 PM IST

راجدھانی دہلی بھی کوونا کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکی اور یہاں ایک دن میں سب سے زیادہ 131 اموات واقع ہوئیں، مجموعی طور پر یہاں آٹھ ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ شمشان گھاٹوں میں چتا جلانے کے لیے یہاں انتظار کرایا جا رہا تھا۔ دہلی کے سب سے بڑے شمشان گھاٹ نگم بودھ پر 104 پلیٹ فارموں میں سے 50 صرف کورونا کی لاشوں کے لیے مختص کیے گئے۔

Published: 27 Feb 2021, 5:11 PM IST

نگم بودھ گھاٹ پر کام کرنے والے سریش نے فون پر بتایا کہ وہ 6 مہینوں تک گھر نہیں جا پائے اور اپنے بچوں سے نہیں ملے۔ ویڈیو کال پر ہی وہ اپنے بچوں کو دیکھ لیتے تھے۔ سریش کے علاوہ مزید ایسے ملازمین ہیں جو مہینوں سے گھر نہیں گئے۔ اس دوران حکومت نے لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے رہنما ہدایات جاری کی تھیں، جس کے مطابق کنبہ کے ایک رکن کو لاش دکھا کر اسے لیکیج پروف پلاسٹک میں پیک کر کے اسپتال کے ملازم آخری رسومات کے لیے بھیج رہے تھے۔ شہروں میں تو رہنما ہدایات کے تئیں لوگ بیدار تھے لیکن دیہی علاقوں میں اس پر کم ہی عمل ہو پایا۔

Published: 27 Feb 2021, 5:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 27 Feb 2021, 5:11 PM IST

,
  • گزشتہ 10 سالوں میں بنے کئی قوانین یا قوانین میں کی گئیں ترامیم امتیازی سلوک کی واضح مثال، آئیے کچھ قوانین پر ڈالیں نظر