قومی خبریں

یوپی سے بھی آئے تھے دہلی کو جلانے والے، تشدد کے دوران کئی واٹس ایپ گروپ تھے فعال

خبروں کے مطابق دہلی میں تشدد کا منصوبہ پہلے ہی سے تیار تھا اور اس کے لئے پڑوسی اتر پردیش سے بھی بڑی تعداد میں لوگ دہلی آئے تھے، یوپی میں دہلی تشدد کے دوران کئی واٹس ایپ گروپ فعال تھے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

راجدھانی دہلی کے شمال مشرقی ضلع میں پیر سے تین دن تک جاری رہے تشدد کو لے کر اب کئی طرح کے انکشافات سامنے آرہے ہیں، خبروں کے مطابق دہلی پولیس نے بتایا ہے کہ دہلی تشدد کے دوران دہلی کے باہر کے کئی واٹس ایپ گروپ اور لوگوں کے مشتبہ کردار بھی سامنے آ رہے ہیں، جن کی جانچ کی جا رہی ہے، خبروں کے مطابق پیر کی صبح سے شروع ہوئے تشدد کو پورے منصوبہ کے تحت انجام دیا گیا۔ فی الحال اس تشدد کو لے کر دہلی پولیس نے 18 ایف آئی آر درج کی ہیں اور 106 سے زیادہ لوگوں کو اب تک گرفتار کیا ہے۔

Published: undefined

اس دوران خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق اس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ دہلی تشدد کے دوران اب تک پکڑے گئے کئی فونز کو کھنگالنے سے پتہ چلا ہے کہ تشدد کے لئے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ بھیڑ جٹائی گئی تھی، خبروں کے مطابق ان واٹس ایپ گروپ کے چیٹ میں دہلی کے تشدد سے متاثر جعفرآباد، موج پور، بابر پور، چاند باغ اور كردم پوری میں پتھر لانے کی بات کہی گئی اور لوگوں کو بھڑکانے کے لئے نفرت بھری تقریروں اور افواہوں کے بہت سے ویڈیو کا استعمال کیا گیا۔ ان گروپ کے چیٹ میں تشدد کی مکمل منصوبہ بندی پر بحث بھی کی گئی۔

Published: undefined

رپورٹ کے مطابق پولیس نے مقامی لوگوں کے علاوہ بڑی تعداد میں باہر کے لوگوں کو بھی تشدد میں ملوث پایا ہے، رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ پڑوسی ریاست اتر پردیش سے بڑی تعداد میں لوگ دہلی آئے اور انہوں نے یہاں تشدد میں حصہ لیا، اسی وجہ سے منگل کی شام کو یوپی کی حدود کو سیل کر دیا گیا تھا۔

Published: undefined

ذرائع کے حوالے سے شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے دوران پولیس پر صرف بھاری پتھراؤ ہی نہیں ہوا، بلکہ مظاہرین نے کئی مقامات پر دیسی کٹے کا بھی استعمال کیا گیا، صرف اتنا ہی نہیں، فسادات کے دوران کئی مقامات پر لوٹ مار اور ڈکیتی بھی ہوئی، پولیس کا کہنا ہے کہ تشدد کے لئے وہ مقامی بدمعاشوں کے کردار کی بھی جانچ کر رہی ہے۔ بتا دیں کہ شمال مشرقی دہلی میں تین دن تک جاری رہے تشدد میں ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل سمیت اب تک 34 لوگوں کی موت ہو چکی ہے، جبکہ 200 سے زیادہ لوگ شدید زخمی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined