قومی خبریں

ایجنسیوں کو جاسوسی کا حکم یا ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کی کوشش؟

دس ایجنسیوں میں سے کسی بھی ایجنسی کے اہلکار نے کسی بھی شخص سے اگر اس کے کمپیوٹر میں موجود مواد کی تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کی اور اس نے انکار کیا تو اسے سات سال کی جیل اور جرمانہ بھی لگے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

مرکزی حکومت نے اپنی ڈکٹیٹرانہ پالیسیوں کا ایک بار پھر مظاہرہ کر دیا۔ وزارت داخلہ نے ایک حکم نامہ جاری کرکے دس مرکزی خفیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ کسی کے بھی کمپیوٹر کی جانچ کر سکتی ہیں، اس میں محفوظ ڈیٹا کو اپنی تحویل میں لے سکتی ہیں اور کمپیوٹر مٹیریل کی رسائی روک سکتی ہیں۔ جن دس ایجنسیوں کو اس کا اختیار دیا گیا ہے ان میں سی بی آئی، این آئی اے، انٹلی جنس بیور، نارکوٹکس کنٹرول بیورو، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور سینٹرل بیورو آف ڈائرکٹ ٹیکسز شامل ہیں۔ ان دس ایجنسیوں میں سے کسی بھی ایجنسی کے اہلکار نے کسی بھی شخص سے اگر اس کے کمپیوٹر میں موجود مواد کی تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کی اور اس نے انکار کیا تو اسے سات سال کی جیل اور جرمانہ بھی ہوگا۔

ماہرین قانون حکومت کے اس قدم کو غلط قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے جو اس نے نجی آزادی کے حق، ٹیلی فون ٹیپنگ اور آدھار کارڈ کے معاملات میں سنائے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کسی کی نجی آزادی کو چھینا نہیں جا سکتا اور کوئی بھی ادارہ فرد کی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

کانگریس، سماجوادی، سی پی ایم اور دوسری سیاسی جماعتوں نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت اور مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نجی آزادی کے حق کے منافی اور طاقت کا غلط استعمال ہے۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ آخر یہ حکومت ہر شخص کو مجرم کی مانند کیوں دیکھ رہی ہے اور یہ کیوں جاننا چاہتی ہے کہ اس کے کمپیوٹر میں کیا ہے اور وہ اپنے اسمارٹ فون سے کس سے اور کیسی گفتگو کر رہا ہے۔ کانگریس کے سینر رہنما اور ایڈووکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی کہتے ہیں کہ اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ کانگریس کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اس قدم سے ہندوستان کو ایک نگرانی ریاست بنا دینا چاہتی ہے۔

سائبر سیکورٹی کے ماہرین بھی حکومت کی نیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ فریڈم فاونڈیشن کے ایگزکٹیو ڈائرکٹر اپر گپتا کہتے ہیں کہ اس قدم کے بعد ملک میں ایک مکمل نگرانی نظام قائم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ 2017 میں سپریم کورٹ کے ذریعے آدھار کارڈ معاملے میں سنائے جانے والے فیصلے کے بعد نجی رازداری کا آئینی حق مزید مضبوط ہوا ہے۔ لیکن اب اس پر خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

سافٹ ویٹر فریڈم لا سینٹر کے قانونی ڈائرکٹر پارس ناتھ سوگنتھا کہتے ہیں کہ یہ ڈیجیٹل ٹیپنگ کی ایک بہت بڑی کوشش ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مسئلے کا صرف ایک حصہ ہے۔ ہماری تشویش صرف ان دس ایجنسیوں تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ پورا نگرانی نظام جس کی حمایت حکومت کرتی ہے، ایک مسئلہ ہے۔ پارس ناتھ ڈیجیٹل اختیارات کے میدان میں کام کرتے ہیں۔

ٹوئٹر پر بھی متعدد قانون دانوں نے اس حکم کی مخالفت کی ہے اور اسے نجی رازداری کی آئینی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی معروف وکیل اندرا جے سنگھ کہتی ہیں کہ یہ حکم سپریم کورٹ کے فیصلوں کے شدید منافی ہے۔

ایک اور ماہر قانون فرخ خاں ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ حکومت کا یہ قدم غلط ہے۔ اس کو کسی کی بھی نگرانی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ چل رہا ہے تو ایجنسیاں اس کی جانچ کر سکتی ہے۔ لیکن بلا وجہ ہر شخص کے بیڈ روم میں جھانکنا کہاں تک جائز ہو سکتا ہے۔

کانگریس کے ترجمان جے ویر شیرگل کہتے ہیں کہ اب کسی کی بھی گفتگو راز نہیں رہ جائے گی۔ بیٹا اپنی ماں سے کیا بات کر رہا ہے، باپ اپنے بیٹے یا بیٹی سے کیا کہہ رہا ہے، ایک بیوی اپنے شوہر سے کیا بات کر ہی ہے، ایک عاشق اپنے محبوب سے کیا گفتگو کر ہا ہے سب مودی جی سنیں گے۔ لہٰذا اب کسی کی بھی پرائیویسی محفوظ نہیں رہ گئی ہے۔

وزیر مالیات ارون جیٹلی سینئر کانگریس رہنما آنند شرما کے اس بیان پر کہ حکومت ہندوستان کو ایک نگرانی ریاست بنا دینا چاہتی ہے، رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ رائی کا پہاڑ بنا رہے ہیں اور یہ کہ یہ قانون تو 2009 سے نافذ تھا اب اس کا صرف اعادہ کیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر صرف اعادہ کیا گیا ہے تو نوٹی فکیشن جاری کرنے کی کیا ضرورت محسوس ہوئی۔ در اصل پہلے صرف وزارت داخلہ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اگر کسی پر کسی قسم کا شبہ ہے تو وہ اس کی جانچ کر سکتی تھی، اس کے کمپیوٹر کے ڈیٹا کو کھنگال سکتی تھی۔ لیکن اب تو دس ایجنسیوں کو یہ اختیار سونپ دیا گیا ہے۔ یعنی نگرانی کا دائرہ کافی بڑھا دیا گیا ہے۔

Published: undefined

اس حکم نامہ کے قانونی پہلو کے علاوہ اس کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ موجودہ مرکزی حکومت ایک ڈکٹیٹر کی مانند کام کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نریند رمودی نے اپنے وزرا تک کو آزادی نہیں دی ہے تو وہ عام شہری کو کیا آزادی دیں گے۔ اسی لیے ابھی گزشتہ دنوں جب تین ریاستوں میں بی جے پی کی شکست ہوئی تو وہ ممبران پارلیمنٹ بہت خوش تھے جن کو کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا ہے یا جنھیں وزیر اعظم نے بیکار بٹھا رکھا ہے۔

اس حکم کے پس پردہ 2019 کا الیکشن بھی ہے۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس کا الیکشن سے کیا تعلق؟ تعلق ہے۔ وہ اس طرح کہ جس نے مودی کے خلاف ایک جملہ بھی ادا کیا اس کے خلاف فوری طور پر کارروائی شروع کر دی جائے گی۔ حریف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کے خلاف جس انتقامی جذبے کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے اس کا مقصد لوگوں میں خوف و دہشت پیدا کرنا ہے۔ اس حکم نامے کا مقصد بھی لوگوں میں اور بالخصوص بااثر لوگوں کو خوف زدہ کرنا ہے تاکہ وہ مودی حکومت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار نہ کر سکیں۔

نریندر مودی چاہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حکومت کے بارے میں گفتگو کرے تو صرف اس کی تعریف و ستائش ہی کرے۔ وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ عوام میں حکومت مخالف جذبات و خیالات کے عام ہونے سے وہ لوگ بھی اس سے متاثر ہو جائیں گے جو ابھی تک کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ اس لیے لوگوں کو حکومت مخالف گفتگو کرنے سے باز رکھنے کے لیے بھی یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ اگر کسی نے حکومت کے خلاف کوئی بات کہی اور ایجنسیوں نے اس پر غداری یا دیش دروہ کا مقدمہ کر دیا تو پھر دوسروں کی بھی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ کوئی بات کریں۔

گویا یہ آمریت یا ڈکٹیٹر شپ کی ایک شکل ہے۔ لوگوں سے ان کے بولنے کی آزادی چھینے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ لوگ خوف و دہشت میں مبتلا ہو کر وہی کریں اور کہیں جو حکومت چاہتی ہے۔ اگر کسی نے بھی حکومت کے خلاف سر اٹھایا تو اسے کچل دیا جائے گا۔ اس پر غداری کا مقدمہ قائم کرکے اس کا دماغ درست کر دیا جائے گا۔ لہٰذا یہ حکم نامہ جہاں آئین و قوانین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے منافی ہے وہیں شہری آزادی پر ایک بہت بڑی چوٹ اور ہندوستان میں ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined