قومی خبریں

زبان کے تنازع پر شرد پوار کا درمیانی راستے کا مشورہ، کہا- 'نہ تھوپنا درست، نہ نظر انداز کرنا'

شرد پوار نے کہا، ’’پرائمری سطح پر ہندی کو لازمی بنانا مناسب نہیں، بچوں پر بوجھ نہ ڈالیں۔ پانچویں جماعت کے بعد ہندی سکھانا درست لیکن مادری زبان کو ترجیح دی جائے‘‘

<div class="paragraphs"><p>این سی پی - ایس پی کے سربراہ شرد پوار (فائل)/ ویڈیو گریب</p></div>

این سی پی - ایس پی کے سربراہ شرد پوار (فائل)/ ویڈیو گریب

 

مہاراشٹر میں اسکولوں میں ہندی زبان کو لازمی قرار دینے کے حکومتی فیصلے پر جاری تنازع نے سیاسی گرما گرمی پیدا کر دی ہے۔ اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار) کے سربراہ شرد پوار نے درمیانی راستے کی تجویز دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی جماعتوں یعنی پرائمری سطح پر ہندی کو لازمی بنانا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس سے چھوٹے بچوں پر زبان کا غیر ضروری بوجھ پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی ملنی چاہیے تاکہ وہ مضبوط تعلیمی بنیاد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔

Published: undefined

شرد پوار نے کہا، ’’اگر کوئی بچہ اپنی مادری زبان سے دور ہو جائے اور محض ایک نئی زبان سیکھنے پر مجبور ہو جائے، تو یہ تعلیمی طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مشورہ دیا کہ پانچویں جماعت کے بعد اگر والدین چاہیں، تو بچے کو ہندی یا کوئی اور زبان سکھانے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

ریاست میں یہ تنازع اس وقت بڑھا جب حکومت نے اسکولوں میں ہندی کو تیسری لازمی زبان بنانے کا اعلان کیا۔ اس کے خلاف اپوزیشن جماعتیں متحد ہو گئی ہیں۔ شیو سینا (یو بی ٹی) کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ ’’ہم ہندی کے خلاف نہیں لیکن اسے تھوپنے کا مطلب ایک خاص پارٹی کی زبان کو مسلط کرنا ہے۔‘‘

Published: undefined

ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے بھی اس فیصلے کے خلاف کھل کر سامنے آئے ہیں اور ان کی پارٹی ریاست بھر میں مراٹھی زبان کے حق میں دستخطی مہم چلا رہی ہے۔ دوسری جانب نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے وضاحت دی ہے کہ ’’جمہوریت میں کوئی چیز تھوپی نہیں جاتی۔ حکومت نے اب ہندی کو لازمی کے بجائے اختیاری زبان قرار دے دیا ہے۔‘‘

ریاستی وزیر تعلیم دادا جی بھوسے نے اس معاملے پر راج ٹھاکرے سے ملاقات کی، تاہم راج نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ چندرشیکھر باونکولے، جو کہ وزیر ہیں، نے بھی کہا کہ ’’ریاست میں مراٹھی زبان لازمی رہے گی لیکن ہندی ایک اختیاری زبان ہو سکتی ہے۔‘‘

Published: undefined

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ہندی کو لازمی زبان بنانے کے فیصلے کو لے کر بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ عوامی دباؤ کے بعد فڈنویس حکومت نے یو ٹرن لیتے ہوئے ہندی کو لازمی زبان کے بجائے تیسری اختیاری زبان کے طور پر شامل کر کے ڈیمیج کنٹرول کی کوشش کی ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں اب بھی سراپا احتجاج ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined