گجرات سے شائع ہونے والے ایک گجراتی اخبار نے نریندر مودی کے اُس ’گجرات ماڈل‘ نعرہ کی ہوا نکال دی ہے جس کا انھوں نے پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹ رکھا ہے۔ شائع خبر کے مطابق ایک حاملہ خاتون کو اسپتال لے جانے کے لیے بانس میں کپڑا باندھ کر اس میں خاتون کو لٹایا گیا ہے۔ اس خبر کے ساتھ حاملہ خاتون کو اسپتال لے جاتے ہوئے ایک تصویر بھی شائع ہوئی ہے جس میں اس کے گھر والے موجود ہیں۔ اس کی کٹنگ گجرات کے دلت لیڈر جگنیش میوانی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر شیئر کی ہے اور لکھا ہے ’’دیکھیے گجرات واقع سبرکانٹھا ضلع کے پوسینا بلاک میں حاملہ خاتون کو کس طرح اسپتال لے جایا جاتا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’90 فیصد سے زیادہ گائناکولوجسٹ کا عہدہ گجرات کے سی ایچ سی میں خالی پڑے ہیں۔ حاملہ خواتین کو اسپتال تک لے جانے کے لیے 7 کلو میٹر تک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ گجرات ماڈل زندہ باد۔‘‘
Published: undefined
حیرانی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی تقریباً 11 سال تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے اور پھر جب وہ 2014 میں ’گجرات ماڈل‘ اور اسی طرح کے دوسرے ’جملوں‘ کا استعمال کر کے ملک کے وزیر اعظم بنے تو گجرات میں بی جے پی کی طرف سے آنندی بین پٹیل اور پھر وجے روپانی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ یہ بھی غور کرنے والی بات ہے کہ 4 مارچ 1998 کے بعد سے اب تک وہاں بی جے پی کی ہی حکومت رہی، لیکن بنیادی سہولتیں ندارد ہیں۔ گجرات سے کبھی ریاست کے 33.6 فیصد بچوں کے عدم غذائیت کا شکار ہونے کی خبریں موصول ہوتی ہیں تو کبھی کسانوں کی بدحالی موضوعِ بحث بنتی ہے، کبھی دلتوں پر مظالم ڈھائے جانے کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے تو کبھی ریاست میں بڑھ رہی بے روزگاری اخباروں کی زینت بنتی ہے۔ یہ سب اس ریاست میں ہو رہا ہے جسے ’رول ماڈل‘ کی شکل میں پیش کیا گیا لیکن سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے گزشتہ دسمبر میں اپنے گجرات دورہ کے دوران بہت صحیح کہا تھا کہ ’’گجرات ہر پیمانے پر ہماچل، کرناٹک، کیرالہ اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں سے پیچھے ہے۔‘‘
Published: undefined
جہاں تک ایک حاملہ خاتون کو بانس میں کپڑاباندھ کر اور اس میں لٹا کر اسپتال لے جانے کا تعلق ہے، یہ انتہائی غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل معلوم پڑتا ہے۔ جس ریاست کے گاؤوں میں اسپتال تک پہنچنے کے لیے اچھی سڑکیں نہیں ہیں یا جہاں گاڑیوں کی آمد و رفت کی سہولت مہیا نہیں ہیں، اس ریاست کو ’رول ماڈل‘ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ جس طرح سے ’گجرات ماڈل‘ کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے، اس سے تو ہندوستان کی بدنامی ہی ہوگی اور کہا جائے گا کہ جب رول ماڈل ریاست کا یہ حال ہے تو دیگر ریاستوں کی کیا حالت ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی بی سی (ہندی) نے دسمبر 2017 میں ’مودی کے گجرات ماڈل کا سچ کیا ہے‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں مجموعی طور پر یہی کہا گیا تھا کہ مودی یا بی جے پی حکومت نے گجرات کے لیے وہی پالیسیاں اختیار کیں جو ان سے پہلے کانگریس یا دیگر حکومتوں نے اختیار کی تھیں۔ حتیٰ کہ صنعت سے متعلق بھی نریندر مودی کی پالیسیوں کو کچھ خاص نہیں ظاہر کیا گیا۔ کئی بڑی صنعتوں کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ نریندر مودی کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے ہی قائم ہو چکی تھیں۔
2014 انتخابات کے بعد ’گجرات ماڈل‘، ’اچھے دن‘ اور ’ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ‘ جیسے جملوں کی حقیقت دھیرے دھیرے سامنے آنے لگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ 2019 کے انتخابات کے پیش نظر ایک بار پھر مودی بریگیڈ نے فرقہ پرستی کو ہوا دینے اور مذہبی منافرت پھیلانے کی طرف قدم بڑھا دیا ہے۔ ظاہر ہے نہ ہی ’گجرات ماڈل‘ سے اب لوگوں کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ’اچھے دن‘ جیسے جملوں سے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined