آئی اے این ایس
افغانستان کی طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے ہندوستانی دورے کے دوران اس وقت تنازعہ کھڑا ہو گیا جب دہلی میں جمعہ کے روز ان کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس فیصلے پر صحافتی برادری اور سماجی حلقوں نے سخت ردِعمل ظاہر کیا اور اسے خواتین کے خلاف امتیازی رویہ قرار دیا۔
Published: undefined
اس واقعے پر مختلف میڈیا اداروں کی خواتین رپورٹرز نے سوشل میڈیا پر اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پریس کانفرنس کے مقام پر پہنچی تھیں مگر انہیں اندر جانے سے روک دیا گیا۔ کئی صارفین نے کہا کہ تمام خواتین صحافی ڈریس کوڈ کا احترام کر رہی تھیں، اس کے باوجود انہیں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
شدید تنقید کے بعد ہندوستان کی وزارتِ خارجہ (ایم ای اے) نے اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ افغان وزیرِ خارجہ کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو نہ بلانے کے فیصلے میں وزارت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ وزارت نے بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ صرف اور صرف پریس کانفرنس کے منتظمین نے کیا تھا اور ایم ای اے کی کوئی مداخلت نہیں تھی۔
Published: undefined
وزارتِ خارجہ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب سوشل میڈیا پر اور سیاسی حلقوں میں سوالات اٹھنے لگے کہ ہندوستان میں ایسی امتیازی کارروائی کیسے ممکن ہوئی۔ کانگریس رہنماؤں پی چدمبرم اور پرینکا گاندھی نے اس معاملے پر مودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ پرینکا گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی سے براہ راست وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین صحافیوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔
واضح رہے کہ امیر خان متقی جمعرات کو 7 روزہ دورے پر ہندوستان پہنچے تھے۔ اپنے قیام کے دوسرے دن انہوں نے ہندوستانی وزیرِ خارجہ ایس۔ جے شنکر سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تجارت، انسانی امداد اور سیکورٹی تعاون جیسے اہم امور پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا۔
Published: undefined
ملاقات کے بعد میڈیا بریفنگ میں امیر خان متقی نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ کابل جلد اپنے سفارت کاروں کو نئی دہلی بھیجے گا تاکہ دوطرفہ تعلقات کو بحال کرنے کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ان کے مطابق ہندوستانی وزیرِ خارجہ نے افغان حکومت کو اپنے سفارت کار بھیجنے کی اجازت دی ہے، اور اب کابل میں ان اہلکاروں کے انتخاب کا عمل شروع کیا جائے گا۔
اگرچہ متقی کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے کا اشارہ سمجھا جا رہا تھا لیکن خواتین صحافیوں پر پابندی کا واقعہ اس دورے پر ایک منفی سایہ ڈال گیا ہے۔ صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اس طرح کا امتیازی واقعہ ناقابلِ برداشت ہے اور اس پر واضح وضاحت ناگزیر ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined