قومی خبریں

لو جہاد قانون: گجرات حکومت کو سپریم کورٹ کا زوردار جھٹکا، ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے سے انکار

جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ لڑکی کے ساتھ زبردستی یا دھوکہ ہوا، تب تک لو جہاد ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی 

نئی دہلی: سپریم کورٹ سے’لو جہاد ایکٹ‘ پر راحت کی امید کر رہی گجرات حکومت کو بڑا جھٹکا دیا ہے۔ جسٹس عبدالنظیر اور جسٹس کرشنا اور جسٹس کرشنا مراری کی بنچ نے گجرات ہائی کورٹ کے ذریعہ اس قانون کی بعض شقوں پر عائد کردہ پابندی کو ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے کی جانچ کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کی درخواست پر نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ گجرات سرکار کی اپیل کے خلاف سپریم کورٹ میں جمعیۃ علماء ہند کے وکیل کپل سبل اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ایم آر شمشاد موجود تھے، جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے ہائی کورٹ کے اسٹے کو درست قرار دیا اور کہا کہ شخصی اور مذہبی آزادی آئین ہند کی بنیادی روح ہے، اس کے بغیر ملک کا آئین اپنا وجود کھو دے گا۔ گجرات سرکار کی طرف سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے اپنا موقف رکھا۔

Published: undefined

واضح ہو کہ گزشتہ سال اگست میں گجرات ہائی کورٹ کے دو جج جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس ویرن وشنو نے لو جہاد مخالف قانون کو لے کر ایک اہم فیصلہ سنایا تھا۔ ہائی کورٹ نے لو جہاد ایکٹ کی بعض دفعہ کے نفاذ پر روک لگا دی تھی۔ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ جمعیۃ علماء گجرات و دیگر کی عرضی پر دیا تھا۔ جمعیۃ نے اس قانون پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا، گجرات حکومت نے مبینہ لو جہاد کو روکنے کے لیے 15 جون 2021 کو 'گجرات مذہبی آزادی (ترمیمی) ایکٹ 2021' نافذ کیا تھا۔

Published: undefined

اپنے فیصلے میں گجرات ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ لڑکی کو لالچ دے کر پھنسایا گیا ہے، تب تک ’لو جہاد ایکٹ‘ کے تحت کسی بھی شخص کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔ ہائی کورٹ نے لوجہاد قانون کی اہم دفعات (3، 4، 5 اور 6) پر روک لگا دی تھی۔ گجرات سرکار نے اپنی نظرثانی درخواست میں کہا تھا کہ کم ازکم دفعہ 5 پر اسٹے ہٹا دیا جائے جسے بھی ہائی کورٹ نے خارج کر دیا تھا، اس قانون کے تحت تبدیلی مذہب کے لیے مجسٹریٹ کی اجازت ضروری قرار دی گئی تھی، لیکن ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ شادی کے لیے کسی کی اجازت ضروری نہیں۔

Published: undefined

گجرات ہائی کورٹ نے حکم میں کہا کہ اس قانون کی دفعات ان لوگوں پر لاگو نہیں ہو سکتی جنہوں نے بین مذہبی شادی میں زبردستی یا دھوکہ دہی کا کوئی ثبوت نہیں دکھایا گیا ہو۔ عدالت نے کہا تھا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ لڑکی کو لالچ میں پھنسایا گیا ہے، تب تک کسی کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جانی چاہیے۔

Published: undefined

عدالت کے آج کے فیصلے پر جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ اصل لڑائی آئین میں حاصل شخصی و مذہبی آزادی کی بقا کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے آئین میں اپنے مذہب اور عقیدے کے ساتھ ہر شخص کو جینے کا حق حاصل ہے، لیکن حال میں چند ریاستی سرکاروں نے اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند، ملک کے آئین کی تعمیر کرنے والی جماعت ہے، اس لیے وہ ہر دور میں اس کی حفاظت کرے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined