قومی خبریں

مدھیہ پردیش: انتخاب سے پہلے گوالیر بنا سیاسی جنگ کا میدان، کانگریس ’مہاراج‘ کو قلعہ میں ہی گھیرنے کو تیار

پرینکا گاندھی 21 جولائی کو گوالیر دورے پر پہنچ رہی ہیں، اس دوران ایک بڑا جلسہ بھی منعقد ہوگا، اس میں بڑی تعداد میں کارکنان کو جمع کرنے کے لیے تمام بڑے لیڈران جی جان لگائے ہوئے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>جیوترادتیہ سندھیا اور دگوجئے سنگھ</p></div>

جیوترادتیہ سندھیا اور دگوجئے سنگھ

 

تصویر سوشل میڈیا

مدھیہ پردیش میں اسی سال ہونے والے اسمبلی انتخاب سے قبل گوالیر سیاسی جنگ کا میدان بنتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گوالیر کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں گئے مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا کا قلعہ ہے۔ ریاست سے لے کر قومی سطح کے کانگریس لیڈران میں اس بات کا غصہ اب بھی ہے کہ ریاست میں کانگریس کی حکومت سندھیا اور ان کے حامیوں کی لالچ کے سبب گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے تمام بڑے لیڈران ساڑھے تین سال سے سندھیا پر سیدھے نشانہ لگائے ہوئے ہیں اور لگاتار گوالیر-چنبل علاقے میں دخل دے رہے ہیں۔

Published: undefined

اس درمیان کانگریس کی قومی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی 21 جولائی کو گوالیر دورے پر پہنچ رہی ہیں۔ یہاں وہ ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب بھی کریں گی۔ اس جلسہ میں بڑی تعداد میں کارکنان کو جمع کرنے کے لیے تمام بڑے لیڈران جی جان لگائے ہوئے ہیں۔ کانگریس کی کوشش ہے کہ پرینکا گاندھی کی موجودگی میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ سابق وزیر اعلیٰ دگوجئے سنگھ بھی جیوترادتیہ سندھیا پر لگاتار حملہ آور ہیں۔ حال میں انھوں نے صحافیوں کے ایک سوال پر کہا بھی کہ 1857 میں قلعہ منہدم ہو گیا تھا اور اب ایک بار پھر قلعہ تباہ ہونے والا ہے۔

Published: undefined

ایک طرف کانگریس گوالیر-چنبل ڈویژن میں اپنی طاقت دکھانے میں لگی ہے تو دوسری طرف بی جے پی کے بھی تمام بڑے لیڈران کی سرگرمی مدھیہ پردیش میں بڑھ رہی ہے۔ انتخاب کے مدنظر کئی بڑی تقرریاں ہو چکی ہیں اور لیڈران کے دورے بھی ہوئے ہیں۔ اب ایک بار پھر پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا اور وزیر داخلہ امت شاہ کا ریاست میں قیام ہونے والا ہے۔

Published: undefined

مجموعی طور پر دیکھیں تو ریاست میں اہم سیاسی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے لیڈروں سرگرمی لگاتار بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف جہاں تنظیم میں کساوٹ لانے کی کوشش ہو رہی ہے تو وہیں دوسری طرف عوام سے سیدھے ڈائیلاگ کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ اس کی وجہ بھی ہے کیونکہ 2018 کا اسمبلی انتخاب کانٹے کی ٹکر والا رہا تھا۔ اس سال کے آخر میں ہونے والا اسمبلی انتخاب بھی سخت ٹکر کا رہنے والا مانا جا رہا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined