قومی خبریں

کشمیر: سرکاری انٹرنیٹ مراکز رشوت کے اڈوں اور اذیت خانوں میں تبدیل

نیٹ کا فارم جمع کرنے والے ایک طالب علم نے یو این آئی اردو کے نامہ نگار کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ دستاویز کا حجم کم کرنے کے لئے مجھے سینٹر سے واپس کردیا گیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

سری نگر: وادی کشمیر میں پانچ اگست سے تمام تر انٹرنیٹ سہولیات کی معطلی کے بعد حکومت کی طرف سے تمام ضلع صدر مقامات پر طلبا اور تاجروں کی سہولیات کے لئے قائم سرکاری انٹرنیٹ مراکز یا این آئی سی سینٹر رشوت کے اڈے ہی نہیں بلکہ طلبا کے لئے اذیت خانے بن گئے ہیں اور سینٹروں کے باہر ایجنٹ بھی سرگرم ہوگئے ہیں جو طلبا سے منہ مانگی رقم وصول کر ان کا فارم جمع کرتے ہیں۔

Published: undefined

بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے پیش نظر وادی میں تمام تر انٹرنیٹ سہولیات کو معطل کیا گیا تھا نیز جموں کشمیر میں دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو رشوت ستانی کا موجب قرار دیا گیا تھا۔

Published: undefined

مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلبا کی طرف سے یو این آئی اردو کو مسلسل شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ بعض اضلاع میں ضلع مجسٹریٹ دفاتر میں طلبا اور تاجروں کی سہولیات کے لئے قائم کیے گئے این آئی سی سینٹرس رشوت ستانی کے اڈے ہی نہیں بلکہ اذیت خانے بن گئے ہیں۔ طلبا نے الزام عائد کیا ہے کہ بعض این آئی سی سینٹروں کے باہر ایجنٹ، جن میں ضلع مجسٹریٹ دفاتر کے کئی ملازمین بھی شامل ہیں، بھی سرگرم ہیں جو طلبا سے فارم جمع کرنے کے لئے منہ مانگی رقم وصول کرتے ہیں اور ان کا فارم جمع کرتے ہیں۔

Published: undefined

ان کا کہنا ہے کہ این آئی سی سینٹروں میں ان ہی طلبا کے اسکالر شپ فارم یا دوسرے فارم جمع ہو پاتے ہیں جن کے ان دفاتر میں رشتہ دار ملازمت کر رہے ہیں یا جو رشوت دینے کے اہل ہیں۔ اس دوران جب یو این آئی ارود کے نامہ نگار نے ایک ضلع مجسٹریٹ دفتر کا دورہ کیا تو نہ صرف طلبا کی شکایات کو صد فیصد درست پایا بلکہ وہاں موجود طلبا کے ساتھ بات کرنے پر حالات کو اس سے بھی زیادہ بدتر پایا۔ یو این آئی کے نامہ نگار کے مطابق ضلع مجسٹریٹ کے دفاتر کے باہر صبح سویرے ہی لمبی لمبی قطاروں میں طلبا کو اپنی اپنی باریوں کا انتطار کرنا پڑتا ہے۔

Published: undefined

ایک لمبی قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنے والے ایک طالب علم نے اپنی روئیداد یوں بیان کی۔ 'میں گزشتہ چار دنوں سے مسلسل یہاں اپنا فارم ہاتھ میں لئے لمبی قطار میں کھڑا ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتا ہوں گزشتہ روز جب مجھے اندر داخل ہونے کا موقع ملا، لیکن وہاں مجھے ایک سلپ پر فارم جمع کرنے کے لئے آنے کی تاریخ دی گئی جب میں گھر واپس لوٹا اور شام کو سلپ پر تاریخ دیکھی تو وہ 20 جنوری کے بعد کی تاریخ تھی جبکہ اسکالر شپ فارم جمع کرنے کی آخری تاریخ 17 جنوری ہی مقرر ہے'۔

Published: undefined

ایک طالب علم نے کہا کہ بیس کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد پانچ سے چھ گھنٹوں تک لگاتار قطار میں کھڑا رہ کر بھی میں اسکالر شپ فارم جمع کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 'میں ضلع صدر مقام سے بیس کلو میٹر دور ایک گاؤں میں رہتا ہوں، ٹھٹھرتی سردی میں صبح سویرے کبھی پیدل تو کھبی بس میں سفر کرکے کسی طرح ضلع مجسٹریٹ کے دفتر تک پہنچنے میں تو کامیاب ہوجاتا ہوں لیکن پھر یہاں لمبی قطار میں گھنٹوں کھڑا رہ کر بھی اسکالر شپ فارم جمع کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے کیونکہ کبھی او ٹی پی نمبر کا نہ آنا تو کھبی کوئی اور وجہ رکاوٹ بن کر میری محنت پر پانی پھیر دیتی ہے'۔

Published: undefined

نیٹ کا فارم جمع کرنے والے ایک طالب علم نے یو این آئی اردو کے نامہ نگار کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ دستاویز کا حجم کم کرنے کے لئے مجھے سینٹر سے واپس کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 'مجھے لمبی قطار میں گھنٹوں انتطار کرنے کے بعد جب اندر جانے کی باری آئی تو میں دل ہی دل میں خوش ہوا لیکن اندر جاکر بتایا گیا دستاویزات کا حجم زیادہ ہے باہر سے ان کا حجم کم کرکے لاؤ اور پھر دوبارہ اندر جانے کے لئے مجھے دوسرے دن بھی لمبی قطار میں گھنٹوں تک انتظار میں کھڑا رہنا پڑا'۔

Published: undefined

یو این آئی اردو کے نمائندے نے جب ضلع مجسٹریٹ دفتر کے باہر لوگوں کے ایک گروپ سے طلبا کو اسکالر شپ یا دوسرے فارم جمع کرنے کے لئے درپیش مشکلات کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ 'طلبا کو فارم جمع کرنے کے لئے ضلع مجسٹریٹ کے دفاتر کے باہر لمبی قطاروں میں کھڑا رہنا جہاں ایک طرف حکومت کے لئے سوالیہ نشان ہے وہیں ایک سماج کے لئے حوصلہ افزا بات نہیں ہے اس سے طلبا کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جن کا براہ راست اثر معاشرے پر مرتب ہوگا'۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ طلبا کو فارم جمع کرنے کے لئے خصوصی انتطامات کا ترجیحی بنیادوں پر بندوبست ہونا چاہیے تھا تاکہ ان کا وقت بھی ضائع نہ ہوتا اور تعلیم بھی متاثر نہ ہوتی۔ قابل ذکر ہے کہ وادی میں پانچ اگست سے انٹرنیٹ سہولیات کی مسلسل معطلی سے مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں بالصخوص طلبا، صحافیوں اور تاجروں کو گوناگوں مشکلات درپیش ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined