قومی خبریں

دبے گی کب تلک آوازِ آدم ہم بھی دیکھیں گے؟

اتر پردیش بھر میں بڑھتے مظاہروں سے ریاستی حکومت کے ذمہ داروں کی تشویش بڑھ گئی ہے مگر سرِ دست ان کو اس کا کوئی توڑ نظر نہیں آرہا ہے

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز 

شہریت ترمیمی قانون کے تعارف کے بعد سے ملک کے مختلف شہروں میں صدائے احتجاج بلند ہونے لگی ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس جبر و استبداد اور ظلم و جور کا مقابلہ کرنے، صنف نازک کا ایک بڑا طبقہ سڑکوں، میدانوں اور بازاروں میں سرگرم عمل ہے۔ ان کو نہ گرمی کی شدت اور نہ سردی کا خیال ہے۔ بس وہ نکل کھڑی ہوئیں اور ان کا یہ نعرہ ہے کہ ہم اس جابرانہ قانون کی واپسی تک مظاہرے اور احتجاج جاری رکھیں گے۔

Published: undefined

ملک کی راجدھانی دہلی واقع شاہین باغ سے کمزور و نحیف آوازوں نے فلک میں چھید کردیا۔ ان چند آوازوں کو ہزاروں کی تعداد میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگی اور اب صورتحال مختلف ہے اور سرکار کے لئے مصیبت بن چکی ہیں۔ شاہین باغ کی طرح اب پورے ملک میں چھوٹے اور بڑے خواتین کے غول کھانے، پینے اور آرام کو تج کرکے سرکار سے لوہا لے رہی ہیں۔

Published: undefined

شاہین باغ کی دیکھا دیکھی دوسرے متعدد شہروں میں اب خواتین جوش و خروش سے مظاہروں میں مصروف ہیں اور ان کی اس کوشش میں ان کے افراد خانوادہ بھی شریک ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ علماء جن پر قوم تکیہ کرتی تھی ان کو مظاہروں سے الگ رکھا گیا ہے، یا یوں کہا جائے کہ وہ خود کو سرکار حامی ہونے کی وجہ سے دور دور ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ احتجاج کو کامیابی بھی مل رہی ہے۔

Published: undefined

لکھنؤ جو عام طور سے ایک سست اور روایتی شہر کے طور سے مشہور ہے، اب مظاہروں کا محور و مرکز بنتا جا رہا ہے۔ حسین آباد کے تاریخی ’گھنٹہ گھر‘ پر لا تعداد خواتین کا ہجوم یوگی حکومت کے لئے چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ہجوم کا کوئی لیڈر نہیں، کوئی رہبر نہیں، بس چند خواتین ہیں جو نام و نمود کی لالچ سے دور خود کو اس ’خدمت‘ میں کھپائے دے رہی ہیں۔ یہی حال اتر پردیش کے دوسرے شہروں کا بھی ہوتا جا رہا ہے۔

Published: undefined

یاد رہے گزشتہ مہینے 19 دسمبر کو ایک پر امن احتجاج کو کس طرح سے پولیس نے روندا تھا، غالباً ’’یہی وہ احساس ناکامی“ ہے جو ان خواتین کے دلوں میں گھر کر گیا۔ آج پانچویں روز اس مظاہرے میں خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ دو دن قبل رات کی تاریکی میں پولیس نے ایک بار پھر جبر و استبداد کا مظاہرہ کیا اور وہاں موجود کمبلوں اور کھانے پینے کی اشیاء کو اٹھا لیا تھا۔

Published: undefined

احتجا ج میں شامل خاتون صدف جعفر جو دو ہفتے سے زیادہ جیل میں گزار کر آئی ہیں ان کو خیال ہے کہ یوگی سرکار جس طرح کا بھی ظلم کرے ہم ہار نہیں تسلیم کریں گے۔ ان کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے رات کو بجلی بند کر دی جاتی ہے، چھوٹے چھوٹے بچے کھلے آسان کے نیچے اپنی ماؤں کے ساتھ رہتے ہیں۔ جبکہ موسم کی شدت اور بغیر کسی شامیانے کے کس طرح سے شب بسری ہوتی ہے کوئی بھی تصور نہیں کر سکتا ہے۔

Published: undefined

وقف حسین آباد کی املاک اور انتظامیہ پر سرکاری قبضہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں بھی من مانے کا دور دورہ ہے۔ رات ہوتے ہی بجلی کے کھمبوں کی روشنی گل کر دی جاتی ہے اور خواتین سے بھرا ہوا سبزہ زار شمعوں اور الاؤ سے روشن کرنے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ جن خواتین کا اس احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ ہے ان کے شوہر، بھائی، بیٹے اور دیگر رشتہ دار دور کھڑے ہوکر اپنا خاموش تعاون دے رہے ہیں۔

Published: undefined

احتجاج میں خاتون پولیس کی نفری بڑھا دی گئی ہے اور مرد پولیس کو کچھ دور رکھا گیا ہے تاکہ ان پر کسی بھی نوعیت کا الزام نہ عائد ہو۔ مظاہرین میں شامل کچھ لڑکیاں پولیس کے جوانوں کو پھول پیش کر رہی ہیں تاکہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ پولیس کی ٹکڑیوں میں سے کچھ گلاب کے پھول کو قبول کر رہی ہیں اور کچھ ڈھیٹ بن کر لینے سے انکار بھی کر رہی ہیں۔ ان ٹکڑیوں میں بہرحال کچھ ایسے پولیس والے اور والیاں بھی ہیں جن کو مظاہرین کا در سمجھ میں آرہا ہے۔

Published: undefined

گزشتہ رات کو اندھیرے میں دھرنے پر بیٹھیں خواتین کو آر اے ایف کی ٹکڑیوں نے گھیر لیا اور یہ خبر پھیلنے لگی کہ آج کی رات ان کو یہاں سے زبردستی ہٹا دیا جائے گا، مگر سوشل میڈیا پر پیغام کی وجہ سے وہاں مزید عورتیں پہنچ گئیں اور جس بات کا ڈر تھا وہ نہیں ہو سکا۔

Published: undefined

ادھر پولیس نے سیکڑوں خواتین کے خلاف ایف آئی درج کی ہے جس میں ان کو امن عامہ کے لئے خطرہ بتایا ہے، ان پولیس رپورٹوں میں مشہور شاعر منور رانا کی دو بیٹیاں سمیہ رانا اور فوزیہ رانا کے نام بھی شامل ہیں۔ قومی آواز سے گفتگو کرت ہوئے صدف جعفر نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس رپورٹ کی خبر سنتے ہی عورتوں میں زبردست جوش بھر گیا۔ صدف کہتی ہیں کہ رات بھر ہم لوگ اندھیرے میں فلک شگاف نعرے بلند کرتے ہیں اور ایک بڑا مجمع ڈٹا رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا اول تو ٹھنڈک اور پھر تاریکی ہمارے جذبات کو سرد کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو رہی ہے، یہاں الاؤ جلانے کی ممانعت ہے، ہم کو ان بے چارے پولیس والوں اور خواتین کی ٹکڑیوں کا بھی خیال ہے جو سردی کی وجہ سے کانپا کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جو روکھی سوکھی ہم سب کھاتے ہیں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ان میں پولیس کو بھی شامل کیا جائے۔

Published: undefined

دھرنے پر کھانا اور پانی، چائے وغیرہ بڑی مقدار میں ہے۔ چند رضاکار تنظیمیں اور اس علاقے کے علاوہ دور دور سے لوگ یہاں پہنچ کرمظاہرین کی ’’کفالت‘‘ کر رہے ہیں۔ مظاہرین کی بڑی تعداد ’’مبینہ علماء اور اکابرین قوم‘‘ کا نام سنتے ہی تیوریاں چڑھا لیتی ہیں ان کا خیال ہے کہ ان ’’حضرات“ کے ہاتھ میں دھرنا ہوتا تو اب تک کب کا سودا ہو چکا ہوتا۔ حیرت کی بات یہ ہے شہر لکھنؤ کے گومتی نگر علاقہ میں اجریاوں کی درگاہ میں بھی خواتین نے مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔

Published: undefined

اتر پردیش بھر میں بڑھتے مظاہروں سے ریاستی حکومت کے ذمہ داروں کی تشویش بڑھ گئی ہے مگر سردست ان کو اس کا کوئی توڑ نظر نہیں آرہا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined