قومی خبریں

شادی شدہ خاتون کے ذریعہ شادی کے وعدے پر جنسی تعلقات قائم کرنے پر ہائی کورٹ نے سنایا اہم فیصلہ

جسٹس شالنی سنگھ ناگپال نے کہا کہ جب ایک مکمل طور سے بالغ، شادی شدہ خاتون محض شادی کے وعدے پر جنسی تعلقات کے لیے رضا مندی ظاہر کرتی ہے اور ایسا کرنا جاری رکھتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

علامتی تصویر / آئی اے این ایس

 

 پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے شادی کا جھانسہ دے کرعصمت دری کے معاملے میں اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ قانونی طور سے شادی شدہ عورت کو شادی کے نام پر جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے راضی کیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ خاتون کسی دوسرے مرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کے وقت شادی شدہ تھی۔

Published: undefined

’لائیو لا‘ کی رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ نے اس معاملے میں درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا حکم دیا ہے۔ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس شالنی سنگھ ناگپال نے کہا کہ یہ نہیں مانا جا سکتا کہ الزام لگانے والے (خاتون) نے درخواست گزار کی طرف سے کئے گئے وعدوں کے اثر میں کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران خاتون درخواست گزار کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے میں بھی شامل رہی تھی۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ جب ایک مکمل طور سے بالغ، شادی شدہ خاتون محض شادی کے وعدے پر جنسی تعلقات کے لیے رضا مندی ظاہر کرتی ہے اور ایسا کرنا جاری رکھتی ہے، تو یہ شادی کی توہین ہے، نہ کہ ثبوتوں کی غلط تشریح کے اثر میں آکر کام کرنا۔ ایسے معاملوں میں عرضی گزار پر مجرمانہ ذمہ داری طے کرنے کے لیے آئی پی سی کی دفعہ 90 نہیں لگائی جا سکتی۔ واضح طور پر استغاثہ نے عرضی گزار کے ساتھ گزشتہ ایک سے زیادہ وقت تک اپنی مرضی سے تعلقات قائم کئے تھے جس دوران وہ اپنے شوہرکے ساتھ بھی رشتہ ازدواج میں رہی۔

Published: undefined

عدالت نے کہا کہ اگر درخواست گزار کے خلاف ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات اور سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت دیے گئے بیانات کو مان بھی لیا جائے تو بھی یہ بات ناقابل فہم ہے کہ قانونی طور پر شادی شدہ خاتون کو شادی کے وعدے پر کسی سے جنسی تعلقات کے لیے راضی کیا جاسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ استغاثہ کافی عرصے سے درخواست گزار کے ساتھ جنسی تعلقات میں تھی، جب اس کی بہن کی عرضی گزارکے ساتھ منگنی ہوگئی تو اسے جذباتی طور سے جھٹکا لگا۔ ایسے میں کیس درج کرایا گیا۔

Published: undefined

عدالت نے پایا کہ استغاثہ وکیل ہے اور اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں ہے۔ درخواست گزار بھی وکیل ہے، جو استغاثہ فریق کے وکیل کے خلاف مقدمہ لڑ رہا ہے۔ اس صورت میں درخواست گزار کے اس پوزیشن میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ خاتون کو شادی کے وعدے پر جسمانی تعلقات پر آمادہ کر سکے۔

Published: undefined

عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ درخواست گزار کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 506 کے تحت مقدمہ درج ہے۔ الزام ہے کہ جب خاتون نے درخواست گزار سے اس کی بہن سے منگنی پر اعتراض کیا تو اس نے خاتون کو مارنے کی دھمکی دی۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار کی طرف سے کہے گئے الفاظ کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ لہذا، ان کی عدم موجودگی میں یہ تعین کرنا ناممکن ہے کہ آیا درخواست گزار کا استغاثہ کو دھمکانا تھا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے ایف آئی آر میں تاریخ، مقامات کا ذکر نہیں ہونے پر بھی غور کیا۔

Published: undefined