آخر ہریانہ میں وہی ہوا جو پچھلے ہفتے اتر پردیش میں ہوا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران نے صدر امت شاہ کی قیادت میں ایک میٹنگ کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے استعفیٰ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر بی جے پی کے نقطہ نگاہ سے کھٹر معصوم ہیں۔ ان سے کوئی نظامت کی غلطی نہیں ہوئی ہے۔ اگر 30-32 افراد مارے گئے تو کیا ہوا۔ اتر پردیش میں ضلع گورکھپور کے ایک سرکاری اسپتال میں آکسیجن نہ ملنے سے 72 بچوں کی موت کے بعد امت شاہ نے نہ صرف یو پی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے استعفیٰ کی مانگ رَد کر دی تھی بلکہ یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔‘‘
دراصل بی جے پی کے سیاسی نظریہ میں انسانی موت کی کوئی قدر نہیں ہے۔ سنہ 1990 کی دہائی سے اب تک بھارتیہ جنتا پارٹی موت کے کاندھوں پر سوار ہو کر ہی اقتدار کی اس منزل تک پہنچی ہے۔ سنہ 1990 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اتنی سیٹیں نہیں ملیں کہ وہ برسراقتدار آ سکتی۔ لیکن سنہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام میں کلیدی رول نبھانے کے بعد سنہ 1998 میں بی جے پی پہلی بار برسراقتدار آ گئی تھی۔ گو اٹل بہاری واجپئی اس وقت محض 13 دن کے وزیر اعظم رہے لیکن بابری مسجد اور رام مندر سانحہ میں ہزاروں لوگوں کی خون کی بلی نے بی جے پی کو مرکزی اقتدار تک پہنچا دیا۔
پھر سنہ 2002 میں گجرات فسادات میں دو ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے۔ ان فسادوں میں جو خون بہا اس نے نریندر مودی کو پہلے گجرات میں 12 برس کا اقتدار بخشا پھر اس کے بعد وہ سارے ہندوستان کے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ بن گئے۔ اسی مقبولیت نے ان کو سنہ 2014 میں بی جے پی کا وہ پہلا وزیر اعظم بنا دیا جس نے اپنے دم خم پر پارٹی کے لیے واضح اکثریت حاصل کی۔
جتنا خون بہتا ہے اور نفرت کی جس قدر آگ پھیلتی ہے بی جے پی اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے۔ اس لیے وہ یوگی ہوں یا کھٹر ہوں، کوئی بھی بی جے پی وزیر اعلیٰ یا دوسرا فرد کتنا ہی خون بہائے، بی جے پی کے لیے یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ اور اگر آج کھٹر کا سر قلم کرتے ہیں تو کل کو 72 بچوں کی موت کے بعد یوگی کیسے بچیں گے! اگر یہی دلیل چلتی رہی تو مودی راج میں 2000 گجراتی مسلمان کے قتل کے بعد خود وزیر اعظم نریندر مودی کے برقرار رہنے کا کیا جواز بچے گا۔ وہ گجرات ہو یا گورکھپور یا اب سرسا، ہر جگہ انتظامی ناکامی تھی۔ اس لیے اس اصول کو محض ایک جگہ نہیں لاگو کیا جا سکتا ہے۔
پھر ڈیرا سچا سودا معاملے میں ہنگامہ آرائی کے معاملے میں تو خود نریندر مودی کے ہاتھ بھی سنے ہوئے ہیں۔ سنہ 2014 میں لوک سبھا اور ہریانہ اسمبلی انتخابات میں ریلی کے وقت بی جے پی نے مودی کے اشارے پر ہی بابا رام رحیم سے دلت سکھ ووٹ بینک کا سودا کیا تھا۔ تب ہی تو سرسا (جہاں تشدد ہوا اور جہاں بابا رام رحیم کا آشرم واقع ہے) کی ایک الیکشن ریلی کے دوران خود مودی جی نے کھڑے ہو کر ڈیرا سچا سودا اور اس کے ماننے والوں کی تعریف کی تھی (ملاحظہ فرمائیے اس ریلی کا ویڈیو)۔
Published: 26 Aug 2017, 4:15 PM IST
اس لیے اگر کھٹر استعفیٰ دیں تو کل کو وہ آنچ مودی کے دامن تک پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے کھٹر کے استعفیٰ کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ملک میں کتنا ہی خون کیوں نہ بہہ جائے اور کتنے ہی افراد موت کے گھاٹ اتر جائیں، نفرت کی سیاست پر ترقی کرنے والوں کے لیے ہزاروں سچا سودا ڈیرا جیسے واقعے بھی کوئی معنی نہیں رکھتے۔
کل یوگی کے استعفیٰ کی مانگ رَد کر دی گئی تھی، آج کھٹر کے استعفیٰ کے خلاف امت شاہ کا فتویٰ آ گیا، آگے کچھ اور ہوتا ہے تو بھی یہی معیار رہے گا۔
یہ بی جے پی ہے، استعفوں میں نہیں خونریزی میں یقین رکھتی ہے۔ اس لیے بی جے پی راج خواہ ہریانہ میں ہو یا اتر پردیش، ہر جگہ موت کا بازار گرم رہے گا۔ لیکن کوئی استعفیٰ نہیں دے گا۔
Published: 26 Aug 2017, 4:15 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Aug 2017, 4:15 PM IST