قومی خبریں

ووٹر لسٹ کی نظرثانی: بہار پر پھر آئینی جمہوریت کے تحفظ کی ذمہ داری

بہار میں ووٹر لسٹ کی نظرثانی کا عمل آئینی بحران میں بدلتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود الیکشن کمیشن کی ضد اس عمل کو مشکوک بناتی ہے، جبکہ شہریت کی جانچ کا خدشہ بھی گہرا ہو رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی، تصویر سوشل میڈیا

 

بہار میں ووٹر لسٹ کی جامع نظرثانی کا معاملہ سنگین تنازع میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف الیکشن کمیشن اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے اور اس نے سپریم کورٹ کا مشورہ ماننے سے بھی انکار کر دیا۔ یہ دو آئینی اداروں میں ٹکراؤ کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ 28 جولائی کو سپریم کورٹ پھر اس معاملے کی سماعت کرے گا، دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

ادھر تیجسوی یادو نے الیکشن کمیشن کے تاناشاہی رویے کے خلاف اسمبلی الیکشن کے بائیکاٹ پر غور کرنے تک کی دھمکی دے دی ہے۔ پارلیمنٹ کے بارانی اجلاس میں بھی یہ مسئلہ چھایا ہوا ہے اور اپوزیشن کی سبھی پارٹیوں کے ممبران سیاہ کپڑوں اور سیاہ پٹیاں باندھ کر ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کر رہے ہیں لیکن الیکشن کمیشن ٹَس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہے۔

Published: undefined

صرف اتنا ہی نہیں، جو پرانی کہاوت ہے کہ بابا کی موت سے زیادہ اس بات کا غم ہے کہ موت کے فرشتے نے گھر دیکھ لیا ہے، ویسا ہی اعلان الیکشن کمیشن نے کیا ہے کہ بہار کے بعد وہ پورے ملک میں ووٹر لسٹ پر ایسے ہی نظرثانی کرے گا۔ یعنی ایک ارب پچاس کروڑ لوگوں کی شہریت کی جانچ ہوگی۔ اس مہم پر کھربوں روپیہ تو خرچ ہوگا ہی، اس سے قطع نظر ووٹر لسٹ سے نام کٹنے کے علاوہ اس کے کیا کیا مضمرات ہوں گے، یہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ اس کا سب سے بڑا نشانہ ’بنگلہ دیشی‘ اور ’روہنگیا‘ کہہ کر مسلمانوں کو ہی بنایا جائے گا، کیونکہ شہریت کے نئے قانون کے تحت غیر مسلموں کو حکومت فوری طور پر شہریت دے دے گی۔ اپوزیشن کی سبھی پارٹیاں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں ان کی زبردست ریلی اس معاملہ پر نہ صرف سیاست دانوں بلکہ عوام کی تشویش کا بھی مظہر ہے، کیونکہ یہ صرف ووٹر لسٹ پر نظرثانی ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پس پشت آبادی کا قومی رجسٹر تیار کرنے کا وہی ارادہ ہے جس کو لے کر شاہین باغ جیسے دھرنے ہوئے تھے۔

Published: undefined

الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے جو دستاویز مانگے ہیں، ان کے بارے میں اس معاملے کی سماعت کر رہے سپریم کورٹ کے جج تک نے کہا کہ ’ان میں سے زیادہ تر کاغذات تو میرے پاس بھی نہیں ہوں گے۔‘ بہار میں ان حالات پر سبھی اخباروں نے بہت تفصیل سے سب کچھ لکھا ہے۔ اپوزیشن ہی نہیں، خود بی جے پی کی حلیف تلگو دیشم پارٹی نے بھی اس عمل پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔

بہار میں برسرِ اقتدار نتیش کمار کی جنتا دل کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے بھی الیکشن کمیشن کی مہم پر سوال اٹھائے ہیں۔ ادھر راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر اور بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے ملک کی 35 سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کو مکتوب روانہ کر کے اس خطرناک مہم کے خلاف ان سب کو آگاہ کرتے ہوئے اس کی مخالفت کرنے کی اپیل کی ہے۔

Published: undefined

تیجسوی یادو نے لکھا ہے کہ بہار میں سات کروڑ 90 لاکھ ووٹر ہیں۔ اگر بی جے پی کے اشارے پر الیکشن کمیشن صرف ایک فیصد ووٹروں کے نام کاٹ دے تو یہ تعداد سات لاکھ 90 ہزار ہو جائے گی۔ اسے اگر بہار کے سبھی 243 اسمبلی حلقوں میں تقسیم کیا جائے تو ہر حلقہ سے چار سے پانچ ہزار ووٹروں کے نام کٹ جائیں گے۔ یہ کٹنگ ان حلقوں میں خاص کر کی جائے گی جہاں این ڈی اے کے امیدوار دو تین ہزار ووٹوں سے ہارے تھے اور مہاگٹھ بندھن کے امیدوار کم مارجن سے جیت گئے تھے۔ جبکہ اندرونی خبر یہ ہے کہ 30 سے 35 لاکھ تک ووٹر کاٹے جا سکتے ہیں یا انہیں مشکوک شہری قرار دے کر ووٹ نہ ڈالنے دیا جائے گا۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم اور مہا دلت طبقہ کے ووٹ زیادہ کاٹے جائیں گے۔

تیجسوی یادو نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ ووٹر لسٹ نظرثانی کے بعد کمیشن نے قریب 54 لاکھ ووٹروں کے نام کاٹ دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن نے 18 لاکھ 66 ہزار 869 فوت ہو چکے ووٹروں کے نام کاٹے ہیں۔ انہوں نے کمیشن سے سوال کیا کہ جب 25 جنوری 2025 کو کمیشن نے سمری نظرثانی کے بعد تازہ ترین ووٹر لسٹ جاری کی تھی، تب کمیشن کو فوت ہو چکے اتنے ووٹروں کی فہرست نہیں ملی تھی؟ یا جنوری 2025 سے جولائی 2025 یعنی صرف چھ ماہ میں اتنے ووٹر فوت ہو گئے؟

Published: undefined

اس کے علاوہ کمیشن نے یہ بھی بتایا کہ 26 لاکھ ووٹر دوسرے اسمبلی حلقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے کہ محض پانچ چھ مہینے میں ووٹروں کی اتنی بڑی تعداد دوسرے حلقے میں کیسے منتقل ہو گئی؟ اس طرح کمیشن کے مختلف اعداد و شمار کی بخیہ ادھیڑتے ہوئے تیجسوی یادو نے اس پوری مہم کو ایک گہری سازش قرار دیا ہے۔

الیکشن کمیشن کی اس مہم کے خلاف سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی قریب ایک درجن عرضیاں دائر کی گئی تھیں، جن پر سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کو چند مشورے دیتے ہوئے 28 جولائی کو حلف نامہ کے ساتھ اپنا جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کے جواب میں کمیشن نے قریب 800 صفحات پر مشتمل اپنا جواب سپریم کورٹ میں داخل کر دیا ہے۔ ان میں 88 صفحات میں تو کمیشن کا جواب ہے، باقی صفحات منسلکات پر مشتمل ہیں۔

Published: undefined

کمیشن نے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کے مشورے ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اپنی ہی بات پر اڑا ہوا ہے۔ یہی نہیں، اس نے یہ کہہ کر کہ شہریت کی جانچ کا بھی اسے پورا اختیار ہے، ایک نیا آئینی تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ کیونکہ آزادی کے بعد سے اب تک تو یہی سمجھا اور یہی آئینی پوزیشن سمجھی جاتی تھی کہ شہریت کے تعین کا اختیار صرف مرکزی وزارت داخلہ کو ہے۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا تھا کہ بہار میں ووٹر لسٹ نظرثانی اور ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے جو 11 دستاویز وہ طلب کر رہا ہے، اس کے علاوہ وہ آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور سابقہ ووٹر کارڈ کو بھی منظور کرے۔ مگر الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں اس مشورے کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چونکہ ووٹر لسٹ کی نظرثانی کا ہی کام چل رہا ہے، اس لیے اس لسٹ کی بنیاد پر جاری ووٹر کارڈ قبول نہیں کیا جا سکتا۔

Published: undefined

حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی ووٹر لسٹ اور ووٹر کارڈ کی بنیاد پر ابھی سال بھر قبل ہی پارلیمانی الیکشن ہوئے ہیں۔ تو کیا تب وہ لسٹ صحیح تھی اور چند مہینوں میں ہی غلط ہو گئی؟ اگر ہاں، تو پھر سابقہ پارلیمانی الیکشن بھی غلط ہوئے، انہیں کالعدم کیوں نہ قرار دیا جائے؟

آدھار کارڈ کے سلسلے میں کمیشن نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ اسے ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے قانونی دستاویز نہیں تسلیم کیا جا سکتا کیونکہ اس سے شہریت ثابت نہیں ہوتی اور وہ صرف ایک شناختی کارڈ ہے۔ یہ ایک عجب مضحکہ خیز دلیل ہے، کیونکہ اسی کی بنیاد پر ہی ہندوستانی شہری کو پاسپورٹ جاری ہوتا ہے یعنی شہریت ثابت ہو جاتی ہے۔ اس سے بھی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ آدھار کارڈ کی بنیاد پر جاری پاسپورٹ کو کمیشن جائز دستاویز کے طور پر تسلیم کر رہا ہے۔

Published: undefined

اس مہم میں کتنی گڑبڑی، کتنی بے ضابطگی اور کتنی لاپروائی ہوئی ہے، ان سب کا کچا چٹھا ممتاز صحافی اجیت انجم نے اپنے مختلف ویڈیوز کے ذریعہ کھول کے رکھ دیا ہے۔ ان کے اس کارنامے سے الیکشن کمیشن اتنا خوفزدہ اور ناراض ہوا کہ ان کے خلاف بیگوسرائے سمیت کئی جگہ ایف آئی آر درج کرا دی گئی، مگر اجیت انجم ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں ہے اور وہ کمیشن کے فرضی واڑے کی پوری ہمت اور جوش کے ساتھ بخیہ ادھیڑ رہے ہیں۔ پوری امید ہے کہ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران وہ بھی بطور گواہ پیش ہو کر اپنی تحقیقی رپورٹنگ سے عدالت عالیہ کو صحیح صورت حال سے آگاہ کریں گے اور تب عدالت کا فیصلہ سامنے آئے گا۔

(یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے، ادارہ اس سے مکمل اتفاق کا دعویٰ نہیں کرتا)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined