ہندوستان میں کچھ ایسی ریاستیں بھی ہیں جہاں ہندوؤں کی آبادی اقلیت میں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان ریاستوں میں ہندوؤں کو اقلیتی درجہ دینے کا مطالبہ لگاتار ہو رہا ہے۔ ریاستی سطح پر ہندوؤں سمیت دیگر اقلیتوں کی شناخت کے ایشو پر مرکزی حکومت سے سپریم کورٹ نے جواب بھی مانگا تھا، لیکن مرکز کے رخ نے عدالت کو ناراض کر دیا ہے۔ دراصل حکومت نے اس ایشو پر عدالت میں دو بار الگ الگ جواب دیا ہے، جس پر عدالت عظمیٰ نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ریاستی حکومتوں کے ساتھ اس ایشو پر تین مہینے کے اندر مشورہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹس کے مطابق مرکزی حکومت نے پیر کے روز سماعت کے دوران کہا تھا کہ اقلیتوں کو نوٹیفائیڈ کرنے کا حق مرکزی حکومت کے پاس ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ ریاستوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرس کے ساتھ تبادلہ خیال کے بعد لیا جائے گا۔ حالانکہ مرکزی حکومت نے مارچ میں کہا تھا کہ یہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کے اوپر ہے کہ وہاں کم تعداد ہونے پر ہندوؤں اور دیگر طبقات کو اقلیت کا درجہ دیں یا نہیں۔
Published: undefined
اس معاملے پر جسٹس ایس کے کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے کہا کہ اس طرح کے معاملوں میں ایک حلف نامہ داخل کیا جانا چاہیے کہ مرکز اور ریاست دونوں کے پاس اختیارات ہیں۔ بنچ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ مرکز کے پاس اختیار ہے، ہمارے جیسے ملک میں جس میں اتنا تنوع ہے، ہم سمجھتے ہیں لیکن مزید محتاط رہنا چاہیے تھا۔ ان حلف ناموں کو داخل کرنے سے پہلے سب کچھ پبلک ڈومین میں ہوتا ہے، جس کے اپنے نتائج ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کو کچھ بھی کہنے سے پہلے زیادہ محتاط رہنا ہوگا۔
Published: undefined
بنچ نے سماعت سے تین دن پہلے اسٹیٹس رپورٹ مانگتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت پہلے حلف نامے میں اپنا رخ واضح کر چکی ہے، لیکن تازہ حلف نامے سے پتہ چلتا ہے کہ اقلیتوں کی شناخت کرنے کے لیے مرکزی حکومت کے پاس اختیار موجود ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ریاستوں کے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے تین مہینے کا وقت مانگا ہے۔ انھوں نے بنچ کو جانکاری دی کہ اس کو لے کر ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں متعلقہ محکموں کے تین وزراء سکریٹریوں کے ساتھ موجود تھے اور اس ایشو پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر سوشل میڈیا