قومی خبریں

دہلی ہائی کورٹ نے نرسنگ و پیرامیڈیکل اسٹاف کی باقاعدہ تقرری کا راستہ کیا ہموار، 23 سالوں کی محنت رنگ لائی!

ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ 2002 سے اپنی خدمات اور حقوق کے لیے مستقل قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کبھی امید کی شمع دکھائی دیتی، تو کبھی ایڈمنسٹریٹو مایوسی گھیر لیتی تھی۔

دہلی ہائی کورٹ، تصویر یو این آئی
دہلی ہائی کورٹ، تصویر یو این آئی 

نئی دہلی: دہلی کے سرکاری اسپتالوں میں گزشتہ تقریباً 2 دہائیوں سے دن رات خدمت دینے والے نرسنگ اور پیرامیڈیکل ملازمین کے لیے 10 نومبر 2025 کا دن صرف ایک قانونی فیصلہ نہیں بلکہ 23 سالوں کے طویل انتظار، جدوجہد اور تکلیف کا خاتمہ لے کر آیا۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ 2002 سے اپنی خدمات اور حقوق کے لیے مستقل قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کبھی امید کی شمع دکھائی دیتی، تو کبھی ایڈمنسٹریٹو مایوسی گھیر لیتی تھی۔ ہائی کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں کہا کہ ان ملازمین کی خدمات ’مستقل، ضروری اور فطری‘ رہی ہیں۔ اس لیے ان کی باضابطہ تقرری کوئی رحم نہیں بلکہ ان کا آئینی حق ہے۔

Published: undefined

ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر ملازمین کا خوش کن رد عمل سامنے آیا ہے۔ کچھ ملازمین نے کہا کہ ’’ہماری قربانی اور آنسوؤں کا آخر کار انصاف مل گیا۔‘‘ کچھ ملازمین نے نم آنکھوں سے کہا کہ یہ فیصلہ ان سبھی راتوں کی جیت ہے، جب وہ ڈیوٹی پر تھے اور گھروں میں فیملی ان کا انتظار کرتی رہی۔ یہ ان تہواروں کی جیت ہے جو اسپتال کی گلیوں میں گزرے۔ یہ ان مہینوں کی جیت ہے جب وبا کے دوران بچوں کو گلے بھی نہیں لگا سکے۔ ملازمین نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’آج پہلی بار لگا کہ ہماری تکلیفوں کو کسی نے سچ میں سنا ہے۔ ایڈووکیٹ مونیکا اروڑا کا کردار اس میں بہت اہم رہا۔ وہ ہماری روشنی بن کر کھڑی رہیں۔‘‘

Published: undefined

اشوک کمار نامی ملازم نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ پر کہا کہ ’’20 سالوں سے اسپتال ہمارا دوسرا گھر ہے۔ آج عدالت نے ہمیں بتایا کہ ہماری شناخت معنی رکھتی ہے۔ یہ فیصلہ ہماری عزت نفس کی واپسی ہے۔‘‘ پنکج شکلا نامی ملازم نے کہا کہ ’’اس فیصلے نے ہمارے بچوں کی آنکھوں میں امید لوٹا دی ہے۔ ہم سالوں سے انھیں صرف یہ کہتے آئے تھے کہ ’بس ایک بار ہمارا کیس جیت جائیں‘، آج وہ دن آ گیا۔‘‘ ایک دیگر ملازم محمد عاصم نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’سالوں کی غیر یقینی نے ہمارے کنبوں میں خوف پیدا کر دیا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ملازمت کا کیا ہوگا؟ بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ یہ فیصلہ ان سبھی ڈر کو ختم کرتا ہے۔‘‘

Published: undefined