قومی خبریں

کورونا لاک ڈاؤن میں بے روزگار ہوئے نوجوان در در بھٹکنے کو مجبور، سنیے دیپک اور صادق کی درد بھری داستان

لاک ڈاؤن کے دوران بہت سے نوجوانوں کی ملازمت چلی گئی ہے۔ بچوں کی پڑھائی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ دیپک اور صادق ایسے ہی دو نوجوان ہیں۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد 

کورونا کے بڑھتے معاملوں کے مدنظر آئندہ لاک ڈاؤن کو لے کر اندیشوں کے بازار گرم ہیں۔ لوگوں پر عجیب سا خوف طاری ہے۔ ہندوستان میں مہینوں تک لگایا گیا ’لاک ڈاؤن‘ مس مینجمنٹ اور کئی طرح کے عجیب و غریب تجربات کو لے کر تنقید کا موضوع بنا رہا۔ لاک ڈاؤن کے دوران بہت سے نوجوانوں کی ملازمت چلی گئی ہے۔ بچوں کی پڑھائی بے حد بری طرح متاثر ہوئی ہے اور خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ دیپک اور صادق ایسے ہی دو نوجوان ہیں۔ ان کو لاک ڈاؤن نے پوری طرح برباد کر دیا اور اس سے باہر نکلنے میں انھیں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ یہ دو داستان اس حقیقت کو بیان کرتی ہے۔

Published: undefined

دیپک شرما، مظفر نگر، حلوائی

100 لوگوں کی ایک شادی کی دعوت میں دیپک شرما کھانا بنا رہے ہیں۔ عام بول چال میں انھیں ’دیپک حلوائی‘ کہتے ہیں۔ دیپک حلوائی علاقے میں اپنے لذیز کھانے کے لیے مشہور ہے۔ وہ بڑی تقریبوں میں شرکت کے لیے پہچان رکھتے ہیں۔ ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کی 100 سے زیادہ دعوتیں کرا چکے ہیں۔ دیپک خود اپنے ہاتھوں سے سبزی بنا رہے ہیں۔ ان کے پاس صرف ایک اسسٹنٹ ہے۔

Published: undefined

روٹی بنانے والی پاس میں کھڑی بینا نام کی خاتون کہتی ہے ’’میں نے اکثر انھیں کاریگروں کو ہدایت دیتے دیکھا ہے اور اب یہ سب کام اپنے ہاتھ سے کر رہے ہیں۔‘‘ دیپک کہتے ہیں ’’اب 100 لوگوں کے کھانے کے لیے کسی اور کو روزگار نہیں دے سکتا۔ ایک ہی چادر ہے، کیا اوڑھ لوں، کیا بچھا لوں۔ دیپک اپنے چہرے کی جھریاں دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف 2020 کی تکلیف ہے۔ سب کچھ برباد ہو گیا ہے۔ لیور کی پریشانی کے سبب اسپتال میں اپنا سب کچھ گنوا کے لوٹا تھا۔ شادیوں میں کھانا بنانا اور کام نہ ہونے پر چاٹ کا ٹھیلہ لگانا میری دال روٹی کا ذریعہ تھا۔ شادی بند ہو گئی۔ ٹھیلہ کھڑا ہو گیا اور میں قرض میں ڈوبا اسپتال سے لوٹا تھا۔ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ کچھ دن کٹ گئے جیسے تیسے۔ اب بس مانگنے کی نوبت آ گئی۔ لیکن کس سے مانگیں اور کیوں مانگیں۔ حالت سب کی بگڑ رہی تھی۔

Published: undefined

دیپک اپنے فون میں اپنے دو بچوں کی تصویر دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کے لیے دودھ نہیں جٹا پا رہا تھا۔ آپ سوچیے یہ کتنا تکلیف دہ ہے۔ اپنی دوائی نہ خرید پانا بھی اتنی تکلیف دہ نہیں تھی۔ ایک دن مجھے میری بیوی نے کہا کہ لاک ڈاؤن ہے۔ میں کچھ ٹکی بنا کر دے دیتی ہوں، آپ گھر کے باہر ہی رکھ کر فروخت کر لو۔ دودھ کے پیسے تو آ ہی جائیں گے، میں نے ایسا ہی کیا۔ جیسے ہی گھر کے باہر آلو ٹکی رکھی تو دو چار بکی تھی، ایک امید سی جاگ گئی تھی، لیکن پولس آئی اور ٹکی اٹھا کر لے گئی۔ جیسے تیسے کر کے مقدمے سے جان بچی۔ دیپک کہتے ہیں کہ وہ مرتے دم تک اس تکلیف کو بھول نہیں پائیں گے۔ یہ صرف اور صرف مس مینجمنٹ کی کہانی ہے۔

Published: undefined

صادق، میرا پور، ٹیکنیشین:

38 سالہ صادق کی ملازمت چلی گئی، بچوں کا اسکول چھوٹ گیا۔ بیوی کا علاج نہیں کرا پا رہا۔ اب 5 ہزار کا پارچون کا سامان رکھ کر فروخت کر رہا ہے تاکہ روزی روٹی چل سکے۔ میرا پور کے صادق قریشی دہلی میں ایک موبائل فون اسیمبل کرنے والی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ اس مشکل وقت میں انھوں نے اپنی ملازمت گنوا دی۔ صادق نے جامعہ سے ٹیکنالوجی سیکھی، وہیں پڑھائی کی اور اب تین ہزار مہینے کما رہے ہیں۔ صادق کہتے ہیں کہ اس پیسے میں فیملی چلانا کافی مشکل ہے۔ دہلی میں اتنا پیسہ صرف اسکول فیس میں چلا جاتا تھا۔ زندگی بالکل بدل گئی ہے۔ نہ انھیں لاک ڈاؤن لگانا آیا اور نہ کورونا سے لوگوں کو بچانا، انھیں بس ہندو-مسلم میں بانٹنا آتا ہے۔

Published: undefined

صادق بتاتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی جس قریشی برادری سے آتے ہیں وہ سب سے کم پڑھتی ہے اور بچپن سے کھانے کمانے پر زور دیتی ہے۔ اب میرا خوب مذاق بن رہا ہے۔ پڑھ لکھ کر یہی کرنا تھا تو اتنی محنت اور سپنے پالنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب بے عزتی بھی ہوتی ہے اور آس پاس کا سماج مذاق بھی بناتا ہے۔ صادق بتاتے ہیں کہ پہلے تو ان کی کمپنی میں اچانک سے سینئر ٹیکنیشین کی ملازمت ختم کر دی گئی، اور وہ بھی اس میں شامل تھے۔ اس کے لیے استعفیٰ مانگا گیا، میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ٹرمینیٹ کر دو۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے بعد دو مہینے کی تنخواہ دینے کے بات کہی، پھر تبادلے کی سازش کی اور طرح طرح سے استحصال کرنے لگے۔ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ صادق کہتے ہیں کہ کیا اب مجھے پکوڑے بیچنے چاہئیں۔ اب اس کی بھی گنجائش نہیں بچی ہے۔ ملک میں ایسا ماحول بنا ہوا ہے کہ اگر ہم اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو فوراً اسے ہمارے مذہب سے جوڑ کر کہتے ہیں کہ یہ تو حکومت کے خلاف ہے۔ حکومت اچھا کرے گی تو ہم تعریف بھی کریں گے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined