بامبے ہائی کورٹ نے مسلم لا سے متعلق ایک فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ سول عدالت سابق شوہر کو یہ حکم دے سکتی ہے کہ وہ طلاق یافتہ خاتون کو نان نفقہ ادا کرے۔ ممبئی کی ٹھانے عدالت نے خاتون کی اپیل پر طلاق کو منظور ی دیتے ہوئے شوہر کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ طلاق یافتہ خاتون کو مہر کی رقم، دو نابالغ بچوں کے لئے نان نفقہ اور پراپرٹی میں 50 فیصد حصہ ادا کرے۔
Published: undefined
شوہر نے اس فیصلہ کو ضلع عدالت میں چیلنج کیا جہاں اس کا مقدمہ خارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے عدالت عالیہ کا رُخ کیا تھا۔
ہائی کورٹ میں جسٹس شالنی فنسلکر جوشی نے بھی سول کورٹ کے فیصلہ کی حمایت کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں کہا ’’ مسلم میرج ایکٹ 1939 کے تحت طلاق میں کورٹ کے پاس اس طرح راحت دینے کا دائرہ اختیار کا ذکر نہیں ہے، یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ عدالت کو اسے دینے کا اختیار نہیں ہے۔ اگر ضروری ہے، کلیم کیا گیا ہے اور عدالت بھی ضروری سمجھتی ہے تو راحت دی جا سکتی ہے۔ ‘‘
Published: undefined
شوہر کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے جج نے کہا کہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ بنیادی انصاف کو یقینی بنایا جائے اور اسے لغت یا تشریحی الفاظ کے ذریعہ گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ جج شالنی نے کہا ’’ قانون ہی طے کرتا ہے کہ تمام تنازعات کا تصفیہ ایک ہی فورم میں ہو تاکہ کارروائی کی کثرت سے بچا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نان نفقہ اور ازدواجی جائیداد میں حقوق، شادی ہونے یا پھر اس کے ٹوٹنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں۔ یہ راحت شادی ٹوٹنے کے بعد عدالتی حکم کا اٹوٹ حصہ ہے۔
مسلمانوں کے ایک طبقہ میں اس کو لے کر بے چینی ہے کہ کیا یہ مسلم شریعت میں مداخلت کی کوشش ہے۔ ویسے گزشتہ چار سالوں کے دوران مسلم خواتین مستقل خبروں میں رہی ہیں چاہے وہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ ہو یا کوئی اور جس سے ایسا پیغام جاتا ہے ملک میں اگر کوئی سب سے اہم مسئلہ ہے تو وہ مسلم خواتین کا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined