سوشل میڈیا
بہار اسمبلی میں 24 جولائی 2025 کو ہندوستان کے کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی ایک رپورٹ پیش کی گئی، جس نے 1996 کے چارا گھوٹالے کی یاد تازہ کر دی۔ وہ گھوٹالا سات برسوں میں محکمہ مویشی پروری کے ذریعے 1200 کروڑ روپے کے بجٹ سے باہر رقم نکالنے کا معاملہ تھا، جس نے ریاستی سیاست میں ہلچل مچا دی تھی۔
لیکن اس بار سی اے جی کی رپورٹ (2025 کی رپورٹ نمبر 1) میں صرف مالی سال 2023-24 کے دوران 71 ہزار کروڑ روپے کی خطیر رقم کا ذکر ہے، جس پر ’یوزیج سرٹیفیکیٹ‘ یعنی خرچ کا حساب پیش نہیں کیا گیا۔ یہ ریاست کے سالانہ بجٹ (1.93 لاکھ کروڑ روپے) کا تقریباً ایک تہائی بنتا ہے۔
Published: undefined
رپورٹ میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے، ’’یوزیج سرٹیفیکیٹس نہ ہونے کی وجہ سے یہ یقینی نہیں کہ فنڈز کو مطلوبہ مقصد کے لیے ہی استعمال کیا گیا ہو۔ اس سے خردبرد، بدعنوانی اور من مانے اخراجات کا خدشہ بڑھتا ہے۔‘‘
سب سے زیادہ بے ضابطگیاں بی جے پی کے وزیر کیدار پرساد گپتا کے زیر قیادت پنچایتی راج محکمہ میں سامنے آئی ہیں، جہاں 28154 کروڑ روپے کا کوئی حساب نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد جے ڈی یو کے وزیر تعلیم سنیل کمار کا محکمہ (12623 کروڑ)، شہری ترقی (11065 کروڑ)، دیہی ترقی (7800 کروڑ) اور زراعت (2107 کروڑ) کا نمبر آتا ہے۔
Published: undefined
یہ معاملہ اس لیے بھی سنگین ہے کہ بہار ملک کی سب سے غریب ریاست ہے، جہاں فی کس آمدنی صرف 66828 روپے ہے، جو پڑوسی ریاستوں جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور اتر پردیش سے بھی کم ہے۔ ایسے میں سرکاری فنڈز کی ممکنہ چوری کا مطلب عوام کی بنیادی ضروریات کی قربانی ہے۔
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ فنڈز کو خرچ کیے بغیر دوسرے بینک اکاؤنٹس میں پارک کیا گیا، جس سے خرچ کاغذوں پر زیادہ دکھایا گیا، جبکہ حقیقت میں کچھ خرچ نہیں ہوا۔ اس عمل میں کرپشن کی بو آتی ہے۔ سی اے جی نے یہ بھی کہا ہے کہ ریاست نے پچھلی آڈٹ تجاویز پر عمل نہیں کیا، اندرونی آڈٹ کا نظام غائب ہے اور مالی نظم و ضبط کے قومی معیارات (آئی جی اے ایس) کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
Published: undefined
یہ رپورٹ حزب اختلاف کے لیے بہار کی این ڈی اے حکومت کو گھیرنے کا بڑا ہتھیار بن گئی ہے۔ آر جے ڈی لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے 30 جولائی کو اعلان کیا کہ 71 ہزار کروڑ کے اس گھپلے کو انتخابی ایشو بنایا جائے گا۔
جو این ڈی اے اب تک آر جے ڈی کے ’جنگل راج‘ اور چارا گھوٹالے کو لے کر طنز کرتا رہا، وہ اب دفاعی پوزیشن میں ہے۔ کانگریس، بائیں بازو اور دیگر انڈیا بلاک جماعتوں نے اس بدعنوانی کو لے کر ایک بڑے عوامی احتجاج کی بات کہی ہے، بالکل ویسا ہی جیسا 2011 میں ’انڈیا اگینسٹ کرپشن‘ تحریک میں ہوا تھا۔
Published: undefined
کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’عوام کے پیسے کا غبن کس نے کیا؟‘‘ اگرچہ انہوں نے نتیش کمار کا نام نہیں لیا لیکن انہوں نے بی جے پی کوٹے کے وزیروں کو نشانہ بنایا اور اسمبلی میں وزیروں کے درمیان کرپشن پر ہونے والے عوامی جھگڑوں کا بھی حوالہ دیا۔ پون کھیڑا نے انتخابی فہرست کی ایس آئی آر مہم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’ہم سے کاغذ مانگا جا رہا ہے لیکن حکومت اپنا کاغذ دکھانے سے قاصر ہے۔‘‘
ایس آئی آر نے بھی حزب اختلاف کی ناراضگی کو مزید بھڑکایا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے روک نہ لگانے کے باوجود، ریاست میں 60 سے 70 لاکھ ووٹروں کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کے خطرے کو لے کر احتجاج کی تیاری ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ صرف ڈپلیکیٹ، منتقل یا مردہ ووٹروں کو ہٹا رہا ہے لیکن حزب اختلاف کو اس پر اعتماد نہیں۔ وہ اس عمل میں اہلکاروں کی من مانی اور تکنیکی اہلیت کی کمی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
Published: undefined
وہ اس پورے عمل کی نگرانی کے لیے ریاستی حکومت اور الیکشن کمیشن کی صلاحیت پر سوال اٹھاتے ہیں، اور بوتھ سطح کے افسران کی جانب سے کی جانے والی غیر منطقی اور من مانی گنتی کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ سی پی آئی (ایم ایل) کے جنرل سیکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ نے پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا، ’’ہم بہار میں مہاراشٹر کی تکرار نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
سی پی آئی (ایم ایل)، جس نے 2020 کے اسمبلی انتخابات میں 19 میں سے 12 نشستیں جیتی تھیں، 8 اگست کو ایس آئی آر کے خلاف ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے۔
Published: undefined
ادھر پارلیمنٹ کے موجودہ مانسون اجلاس کے دوران، انڈیا بلاک کے ارکان پارلیمنٹ نے ایس آئی آر کے خلاف احتجاج جاری رکھا اور ’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘، ’ووٹ کی چوری بند کرو، ایس آئی آر واپس لو‘، ’ووٹ بندی بند کرو‘ اور ’آمریت نہیں چلے گی‘ جیسے نعرے درج تختیاں لہرائیں۔
اس وقت آڈٹ رپورٹس کی میزوں اور سڑکوں پر لگے احتجاجی نعروں کے بیچ، بہار تیزی سے ایک غیر یقینی صورتحال کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined