تیجسوی یادو / آئی اے این ایس
پٹنہ کے شری کرشنا اسمارک بھون میں اتوار (27 اپریل) کو آل انڈیا پاسی سماج کی جانب سے تاڑی تاجروں کے ایک عظیم الشان اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) رہنما اور بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو بھی شامل ہوئے۔ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’پاسی سماج کو ہمیشہ سے ہی ذہنی، جسمانی یا معاشی استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاسی سماج کو اس حالت میں دیکھ کر بہت دکھ اور تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
Published: undefined
تیجسوی یادو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے آگے کہا کہ ایک بار بکسر سے واپسی کے دوران انہوں نے اپنی گاڑی ایک کھیت کے پاس رکوائی۔ پاسی سماج کے ایک بزرگ سے ملے، بزرگ نے بتایا کہ پولیس ہم لوگوں کا استحصال کرتی ہے۔ تاڑی ہی ہمارے آباؤ اجداد کی تجارت تھی، جس سے ہماری روزی روٹی چلتی تھی۔ شراب بندی کے قانون کا نافذ ہمارے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ ان کی بات سن کر مجھے بہت تکلیف ہوئی۔
Published: undefined
تیجسوی یادو نے اپنے خطاب میں آگے کہا کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے مطابق پاسی سماج کے 76 فیصد لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے۔ شراب بندی قانون کے تحت سب سے زیادہ درج فہرست ذات، دلت، پسماندہ اور سب سے زیادہ پسماندہ طبقہ کے لوگوں کو جیل میں بند کیا جا رہا ہے۔ 100 فیصد میں 99 فیصد جیل ان ہی لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ان میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو اپنی بیل تک نہیں کرا پا رہے ہیں، کیونکہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ان لوگوں کا مسلسل استحصال کیا جا رہا ہے، رات میں پولیس چھاپے ماری کے نام پر گھروں میں داخل ہو جاتی ہے اور ماؤں بہنوں کا بھی خیال نہیں کرتی ہے۔ ان سب باتوں سے آپ لوگ بخوبی واقف ہیں کیونکہ آپ لوگوں نے یہ سب برداشت کیا ہے۔
Published: undefined
تیجسوی یادو نے یہ بھی کہا کہ جب شراب بندی قانون لائی جا رہی تھی تب نتیش کمار ہمارے ساتھ تھے۔ اس وقت کئی بار ان کے والد لالو پرساد یادو اور انہوں نے خود وزیر اعلیٰ کو بولا کہ تاڑی کو اس قانون سے الگ رکھیے۔ تب نتیش کمار نے بولا کہ لالو یادو آپ فکر مت کیجیے، ہم اس سماج کے لیے ’نیرا‘ شروع کرا دیں گے، لیکن نیرا ہو گیا فلاپ اور چاچا گئے پلٹ۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined