مودی حکومت شہریت ترمیم بل سے متعلق اپنے رخ پر قائم ہے۔ ایک طرف بی جے پی صدر امت شاہ ریلیوں میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی پارٹی بل کو پاس کرانے کے لیے پرعزم ہے، تو دوسری طرف بی جے پی میں ہی اس بل کو لے کر مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ شیلانگ سیٹ سے بی جے پی امیدوار سنبور شُلئی نے اس سلسلے میں پارٹی کو کھلا چیلنج پیش کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’جب تک میں زندہ ہوں تب تک شہریت ترمیم بل نافذ نہیں ہو سکتا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’میں اپنی جان دے دوں گا۔ پی ایم نریندر مودی کے سامنے خودکشی کر لوں گا۔ لیکن میں اس بل کو کسی بھی حالت میں نافذ نہیں ہونے دوں گا۔‘‘
Published: undefined
دوسری جانب شہریت ترمیم بل کو لے کر امت شاہ کے حالیہ بیان پر چوطرفہ تنقید ہو رہی ہے۔ ان کے اس بیان سے عیسائی طبقہ کا ایک طبقہ بھی ناراض ہے۔ کیرالہ کرشچین فورم نے امت شاہ کے بیان پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک کی جمہوری شناخت، ملک کے اتحاد پر سیدھا حملہ ہے۔ فورم نے اس بیان پر امت شاہ اور بی جے پی سے ملک اور خاص کر اقلیتوں سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ قابل غور ہے کہ بی جے پی صدر نے کہا تھا کہ ’’ہم ملک میں این آر سی رجسٹر نافذ کریں گے۔ ہم بودھ، ہندو اور سکھوں کو چھوڑ کر ایک ایک درانداز کو ملک سے باہر کریں گے۔‘‘
Published: undefined
امت شاہ کے بیان پر صحافی ایم کے وینو نے ان پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بڑی ’ٹکڑے ٹکڑے‘ پالیسی کیا ہو سکتی ہے۔ ایپوا کی قومی صدر کویتا کرشن نے بھی امت شاہ سے دو سوال پوچھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’پہلا امت بھائی بدھ اور بودھوں کے درمیان فرق نہیں بتا سکتے ہیں۔ دوسرا یہ بیان میانمار میں مسلم اقلیتوں اور ہندوستان میں مسلمانوں کو بھی واضح طور سے بتاتا ہے کہ انھیں ’دراندازوں‘ کے شکل میں مانا جائے گا جب کہ غیر مسلموں کا استقبال ہے۔‘‘ امت شاہ کے بیان پر طنز کرتے ہوئے صحافی روی نیر نے کہا کہ اس کی شروعات امت شاہ سے ہونی چاہیے اور ان کو ایران بھیج دینا چاہیے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ شمال مشرق کی تمام ریاستوں میں اس بل کے خلاف مخالفت جاری ہے۔ حال ہی میں ناگالینڈ میں بی جے پی کے 37 اراکین نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان سبھی اراکین نے شہریت ترمیم بل کی مخالفت میں پارٹی چھوڑ دیا تھا۔ ریاست بی جے پی سربراہ کو لکھی چٹھی میں اراکین نے کہا تھا کہ وہ اس لیے استعفیٰ دے رہے ہیں کیونکہ وہ پارٹی کے اصولوں سے اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں سب سے زیادہ پریشانی ’ہندوتوا پالیسی‘ سے ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined