سپریم کورٹ / الٰہ آباد ہائی کورٹ
سپریم کورٹ نے 4 اگست 2025 کو جاری کیا گیا اپنا وہ حکم واپس لے لیا جس میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس پرشانت کمار کو فوجداری مقدمات کی سماعت کا اختیار واپس لینے کی ہدایت دی گئی تھی۔ یہ فیصلہ اس وقت آیا جب چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی نے عدالت کو خط لکھ کر اپنے حکم اور اس میں دیے گئے ریمارکس پر نظرِ ثانی کی گزارش کی۔
’بار اینڈ بنچ‘ کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس آر مہادیون پر مشتمل بنچ نے کہا کہ چیف جسٹس آف انڈیا کی درخواست کے پیشِ نظر 4 اگست کے حکم کی پیرا 25 اور 26 حذف کیے جا رہے ہیں اور اب یہ معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر چھوڑا جا رہا ہے۔
Published: undefined
سپریم کورٹ کی بنچ نے واضح کیا، ’’ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ہی ’ماسٹر آف روسٹر‘ ہے، ہمارا مقصد کبھی بھی ان کے انتظامی اختیارات میں مداخلت کرنا نہیں تھا۔‘‘ عدالت نے زور دیا کہ اس کے ریمارکس کا مقصد کسی جج کو شرمندہ کرنا نہیں تھا بلکہ عدلیہ کی ساکھ کو برقرار رکھنا تھا۔ بنچ نے کہا، ’’ہماری نیت نہ تو تضحیک کی تھی اور نہ ہی ذاتی حملے کی، بلکہ یہ سب اس لیے کہا گیا تاکہ عدلیہ کا وقار بلند رہے۔‘‘
یہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب 4 اگست کو سپریم کورٹ نے جسٹس کمار کے ایک فیصلے کو فوجداری قانون کی سنگین غلط تشریح قرار دے کر انہیں ریٹائرمنٹ تک کسی بھی فوجداری مقدمے کی سماعت سے الگ کرنے کی سخت ہدایت دی تھی۔ اس فیصلے میں جسٹس کمار نے کہا تھا کہ چونکہ دیوانی مقدمات میں طویل وقت لگتا ہے، اس لیے فوجداری کارروائی کو بقایا رقم کی وصولی کے لیے اپنانا درست ہے۔
Published: undefined
سپریم کورٹ نے اس استدلال کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور کہا کہ فوجداری کارروائی کو دیوانی عمل کا متبادل نہیں بنایا جا سکتا۔ عدالت نے ہائی کورٹ کا حکم کالعدم کر کے مقدمہ کسی اور جج کو بھیج دیا اور ساتھ ہی جسٹس کمار سے فوجداری مقدمات کی سماعت کا اختیار واپس لینے کی ہدایت دی تھی۔
تاہم اس حکم نے عدلیہ کے اندر شدید ردِعمل پیدا کیا۔ اطلاعات کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ کے کم از کم 13 ججوں نے چیف جسٹس ارون بھنسالی کو خط لکھ کر سپریم کورٹ کی ہدایت کو نہ ماننے کا مشورہ دیا اور فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے کچھ ججوں نے بھی 4 اگست کے حکم پر ناپسندیدگی ظاہر کی۔
Published: undefined
نتیجتاً، یہ معاملہ دوبارہ لسٹ کیا گیا اور آج سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے متنازع ریمارکس اور ہدایات حذف کر دیں اور فیصلہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر چھوڑ دیا۔ عدالت نے کہا کہ جب بھی کوئی معاملہ قانون کی بالادستی پر اثر انداز ہوتا ہے، وہ اصلاحی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گی لیکن اس کا مقصد کسی جج کی توہین کرنا نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined