ادبیات

’اردو زبان اور قانون کا رشتہ بہت گہرا ہے‘

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ اردو اور قانون کا رشتہ بہت گہرا اور مضبوط ہے یہی وجہ ہے کہ قانونی دستاویزات میں اردو زبان کے الفاظ کا کثرت سے استعمال ہوتا رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

نئی دہلی: اردو اور قانون کا رشتہ بہت گہرا اور مضبوط ہے یہی وجہ ہے کہ قانونی دستاویزات میں اردو زبان کے الفاظ کا کثرت کے ساتھ استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ بات قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹرشیخ عقیل احمد نے قومی کونسل کے پینل برائے قانونی مطالعات کی میٹنگ میں کہی۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

انہوں نے کہا کہ آج بھی وکلا، جج اورافسران مختلف النوع رپورٹوں، دستاویزوں اور فیصلوں میں اردو کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔اچھا شہری بننے کے لیے بھی قانون سے آگہی ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ قومی کونسل کے تحت مذکورہ پینل گزشتہ کئی برسوں سے قائم ہے، جس کے تحت اردو میں قانون کی اہم اور عمدہ کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

انھوں نے کہا کہ بہت سے پرانے دستاویزات اورعدلیہ کی زبان میں اردو کے بہت سے الفاظ استعمال ہونے کی وجہ سے قانونی شعبوں سے وابستہ افراد اور طلبا کو خاصی دقتیں پیش آتی ہیں۔اس لیے قومی کونسل نے ملک کی یونیورسٹیوں میں موجود لافیکلٹیز،لاء اسکول اور لاء کے دیگر اداروں کے سربراہان کی ایک میٹنگ بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ان سے درخواست کی جائے گی کہ قانون کے طلبا کو لاء اینڈ لینگویجز کے تحت جہاں ملک کی دوسری زبانیں پڑھائی جاتی ہیں، وہیں اردو زبان کی تدریس کا بھی بندوبست کیا جائے۔ انھوں نے بتایاکہ لاء اینڈ لنگویجز کے چار سمسٹرز ہوتے ہیں، جن میں سے کم از کم ایک میں اردوضرور پڑھائی جائے تاکہ قانون کے طلبا عدلیہ کی زبان میں مستعمل اردو الفاظ کے معانی واصطلاحات سے کماحقہ واقف ہوسکیں۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

اس موقع پر خواجہ عبدالمنتقم نے قانون داں ح ضرات کے لیے اردوسے واقفیت کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرانی دستاویزات اور بہت سی رپوٹوں میں اردو الفاظ اوراصطلاحات کا استعمال ہوتا ہے جس کے سبب پولس،افسران، جج اور وکلاء کو بعض اوقات بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ان قانونی اداروں سے وابستہ افراد کو کم از کم ان اردو الفاظ سے واقف ہونا ضروری ہے جو قانون کی زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

ڈاکٹر شکیل معین نے قانونی شعبوں سے جڑے ہوئے افراد کو اردو الفاظ کی تفہیم میں پیش آنے والی دشواریوں کے پیش نظر ایک ورکشاپ کے انعقاد کی تجویز پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ ایک ایسی ورکشاپ منعقد کی جائے جس میں تمام پولس،افسران، وکلااور جج شریک ہوں اورعدلیہ یا قانون میں استعمال ہونے والے اردو الفاظ کے معانی ومفاہیم پر بات کی جائے۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لا فیکلٹی کی ڈین پروفیسر نزہت پروین خان نے کہا کہ جو پرانے ریکارڈ اردومیں ہیں، انھیں سمجھنے کے لیے قانون کے طلبا کو اردو سکھانی ضروری ہے۔اس سلسلے میں قومی کونسل کی طرف سے لاء فیکلٹیز،لاء اسکولزوغیرہ کے سربراہان کی میٹنگ کا فیصلہ لائق ستائش ہے۔اس طرح یہ قانون کی بھی مدد ہوگی اور اردو کی بھی۔میٹنگ میں ایک ریفریشرکورس کی تجویز پر بھی غور کیاگیا جس کے تحت پولس، کچہریوں میں کام کرنے والے افراد اور ملازمین کو اردو پڑھانے کا بندوبست کیاجائے گا۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

میٹنگ میں جن حضرات نے شرکت کی ان میں ڈاکٹر ظفر محفوظ نعمانی، جناب مصطفےٰ خان ایڈوکیٹ، جناب اقبال احمد، جناب محمد شہنشاہ خان، محترمہ ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی (اسسٹنٹ ڈائریکٹر اکیڈمک)، ڈاکٹر فیروز عالم (اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر)،محترمہ ذیشان فاطمہ اور یوسف رامپوری خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST