عالمی خبریں

مشرق وسطیٰ میں طاقت کی جنگ اور ایران کی نئی خود اعتمادی!

مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدلتا جا رہا ہے۔ ایران نے ان تبدیلیوں کو بڑی دانش مندی سے اپنے حق میں استعمال کیا ہے اور تہران خطے میں قائدانہ کردار کے حامل نئی طاقت بن سکتا ہے

مشرق وسطیٰ میں طاقت کی جنگ کا فاتح ایران؟
مشرق وسطیٰ میں طاقت کی جنگ کا فاتح ایران؟ 

امریکا عسکری حوالے سے شمالی شام سے نکل چکا ہے لیکن سفارتی میدان وہ اب بھی موجود ہے۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ بات چیت کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا کہ ترکی شمالی شام میں اپنی فوجی کارروائیوں میں پانچ روزہ فائر بندی پر تیار ہے۔

Published: undefined

شامی کردوں کے مطابق یہ فائر بندی اگرچہ عملاﹰ وہ نہیں ہو گی، جس کی کہ انقرہ میں ترک کابینہ نے حمایت کی ہے تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ ترک صدر ایردوآن کا یہ اعلان صرف امریکا کی کافی بھرپور سفارتی کوششوں کے بعد ہی ممکن ہو سکا۔

Published: undefined

جو بات واضح نہیں، وہ یہ ہے کہ آیا اس فائر بندی اعلان کا واقعی احترام بھی کیا جائے گا؟ غیر واضح تو یہ بات بھی ہے کہ آیا وائٹ ہاؤس کی سوچ یہ ہے کہ نائب صدر مائیک پینس کا دورہ ترکی اس خطے میں امریکا کی سیاسی اور سفارتی کوششوں کا ایک نیا مرحلہ تھا یا شاید وہ آخری کوشش جس کا مقصد یہ تھا کہ شمالی شام سے امریکی فوجی انخلاء کم از کم بہت جلدی میں کیا جانے والا کوئی اسٹریٹیجک فیصلہ ثابت نہ ہو۔

Published: undefined

لیکن یہ بات بہرحال یقینی ہے کہ امریکا نے مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی کوششیں واضح طور پر اور اس طرح کم کر دی ہیں کہ ان کے بعد شروع ہونے والے ضمنی اثرات کا سلسلہ بھی اب کافی طویل ہو چکا ہے۔ ان ضمنی اثرات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب خطے میں نئے اتحاد اور طاقت کے نئے مرکز قائم ہونے لگے ہیں۔ بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ خطے کی کوئی بھی دوسری ریاست اس امر کی ایران سے زیادہ قائل نظر نہیں آتی کہ وہ ان بدلتے ہوئے حالات کو اپنے حق میں استعال کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔

Published: undefined

ایران کی نئی خود اعتمادی

Published: undefined

چودہ ستمبر کو سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ کیے جانے والے حملوں کی ذمے داری اگرچہ یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں نے قبول کر لی تھی تاہم سعودی عرب اور امریکا نے الزام ایران پر ہی لگایا تھا، جس کی تہران کی طرف سے بھرپور تردید بھی کر دی گئی تھی۔

Published: undefined

اس تردید کے باوجود اس سلسلے ایران کے ناقدین کا تہران پر شک و شبہ مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوا تھا۔

Published: undefined

اس پس منظر میں ایک بات بالکل واضح ہے، اسرائیلی اخبار 'ہاریٹس‘ کے مطابق ایران نے اگر ان حملوں کا سچ مچ حکم دیا تھا، تو اس نے ایسا واقعی بہت زیادہ خود اعتمادی کے احساس کے ساتھ ہی کیا ہو گا۔

Published: undefined

شامی تنازعے سے متعلق واضح سوچ کی کمی

Published: undefined

ایران شام میں امریکا کی کمزوریوں پر بھی قریب سے نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ تہران کی رائے میں امریکا کے پاس جنگ سے تباہ شدہ شام کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل موجود ہی نہیں۔ اس کے برعکس آج شام کی خانہ جنگی کے حوالے سے اگر روس اور ایران سیاسی فاتح نظر آتے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے شروع سے ہی مشرق وسطیٰ کی اس ریاست سے متعلق ایک نپی تلی اور مستقل پالیسی اپنا رکھی ہے۔

Published: undefined

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے شائع ہونے والے جریدے 'فارن پالیسی‘ کے مطابق، ''روس اور ایران نے شامی خانہ جنگی کے حوالے سے شروع سے ہی ایک واضح، محدود اور قابل عمل سوچ اپنا رکھی ہے۔

Published: undefined

ان کا مقصد یہ تھا کہ صدر بشارالاسد کو ہر حال میں اقتدار میں رہنا چاہیے۔‘‘ اس سوچ کا نتیجہ یہ کہ اسد آج بھی اقتدار میں ہیں اور روس اور ایران بھی شام میں موجود ہیں اور آئندہ بھی اس بات کا نظر انداز کیا جانا ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ روس اور ایران شام میں ہی رہیں گے۔

Published: undefined

'ہاریٹس‘ لکھتا ہے، ''ایران نے سعودی عرب پر یہ حملے اس لیے نہیں کروائے ہوں گے کہ یہ تہران کی طرف سے اس کی کوئی نئی سیاسی پالیسی ہے یا اسے کوئی نیا ہتھیار مل گیا ہے، بلکہ محض اس وجہ سے کہ تہران کو علم تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے ایک قریبی اتحادی ملک کے طور پر سعودی عرب کے بہت قریب نہیں کھڑے ہوئے ہوں گے۔‘‘

Published: undefined

سعودی امریکی عسکری اتحاد میں مضبوطی کے بجائے نرمی کے آثار تو کافی عرصے سے نظر آنا شروع ہو چکے تھے۔ امریکا کی طرف سے خلیج کے علاقے میں بھیجے جانے والے بحری بیڑے کی طرف سے بہت پرسکون رویہ ظاہر کیا جائے گا، یہ بات تہران کے لیے تقریباﹰ واضح ہی تھی۔

Published: undefined

ایرانی قیادت نے یہ بات بھی تفصیلی مشاہدے کے بعد محسوس کر لی تھی کہ ترکی میں سعودی عرب کے منحرف شہری اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور اس سے قبل یمن کی جنگ کے آغاز کے بعد سے سعودی عرب کو اس کی قیمت امریکی کانگریس میں اپنے لیے پائی جانے والی ہمدردیوں میں بہت زیادہ کمی کی صورت میں چکانا پڑی تھی۔

Published: undefined

دمشق میں بھی فیصلہ ساز قوتیں

Published: undefined

روس اور ایران کا دمشق حکومت پر اثر اتنا زیادہ ہے کہ وہ ایسے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، جن کے اثرات یورپ تک میں محسوس کیے جاتے ہیں۔

Published: undefined

اسد حکومت کا کوئی آئندہ فیصلہ کیا ہو گا، کب انتظار کیا جائے گا، کب کوئی بڑا فیصلہ سامنے آئے گا اور کردوں کے معاملے میں ترکی کی فوجی مداخلت کے بعد شمالی شام کے بارے میں دمشق حکومت کا اگلا اقدام کیا ہو گا، یہ سب فیصلے دمشق میں خود صدر اسد اکیلے نہیں کرتے۔

Published: undefined

ایران خطے میں اپنی عسکری طاقت کے اسی احساس کے ساتھ اب اس بات کا متحمل بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی ہمسایہ ریاستوں اور علاقے کے دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ طرز عمل اپنائے رکھے۔ انہی عوامل اور حالات و واقعات کو مدنظر رکھیں تو یہ سوال غیر منطقی محسوس نہیں ہوتا کہ آیا مشرق وسطیٰ میں طاقت اور اثر و رسوخ کی جنگ ایران جیت چکا ہے؟

(ڈی ڈبلیو)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined