Getty Images
سعودی عرب نے اسرائیلی قابض حکام کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کے ارد گرد بستیوں کی تعمیر کی منظوری کو سخت ترین الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین، فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے ناقابل تنسیخ حق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں اسرائیلی وزیر خارجہ کے اس بیان کی بھی مذمت کی گئی جس میں انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی فیصلے اور بیانات حکومت کی غیر قانونی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے تسلسل کی عکاسی کرتے ہیں، جو امن عمل میں رکاوٹ اور دو ریاستی حل کے امکان کو سنگین خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے عالمی برادری، بالخصوص سلامتی کونسل کے مستقل ارکان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی قابض حکام کو فلسطینی عوام اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین کے خلاف اپنے جرائم روکنے پر مجبور کریں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سمیت بین الاقوامی قوانین کی پاسداری یقینی بنائیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل کو غزہ پر اپنی جارحیت روکنی چاہیے، مغربی کنارے اور مشرقی القدس میں غیر قانونی سرگرمیوں سے باز آنا چاہیے اور فلسطینی عوام کے خلاف جرائم میں ملوث عناصر کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ ریاض نے یہودی بستیوں کی تعمیر، جبری نقل مکانی اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق سے انکار پر مبنی اسرائیلی پالیسیوں کو واضح طور پر مسترد کرنے کا اعادہ کیا۔
دوسری جانب، نیویارک میں اقوام متحدہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں نئی بستی کے منصوبے سے دستبردار ہو جائے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ یہ منصوبہ علاقے کو تقسیم کر دے گا اور مشرقی القدس کو کاٹ دے گا، جو دو ریاستی حل کے مواقع کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بیان اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے طویل عرصے سے زیر التوا "ای ون" منصوبے پر کام شروع کرنے کا کہا تھا۔ سموٹریچ، جو خود بھی آباد کار ہیں، نے مجوزہ مقام معالیہ ادومیم پر کھڑے ہو کر کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو اور سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اس منصوبے کی بحالی کی حمایت کی ہے، تاہم دونوں کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششوں کا جواب عملی اقدامات اور نئی تعمیرات کے ذریعے دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 2012 میں معالیہ ادومیم کے منصوبے کو روک دیا تھا اور 2020 میں مختصر بحالی کے بعد عالمی اعتراضات کے سبب پھر بند کر دیا تھا۔ امریکہ، یورپی ممالک اور دیگر عالمی طاقتوں نے اس منصوبے کو فلسطینیوں کے ساتھ مستقبل کے امن معاہدے کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔
ماہرین کے مطابق یہ اقدام اسرائیل کی عالمی سطح پر مزید تنہائی کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ غزہ میں جاری فوجی کارروائی اور فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت پر کئی مغربی اتحادیوں کی تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے میں بستیوں کی تیزی سے بڑھتی تعمیرات انہیں اپنی ریاست کے قیام کے کسی بھی موقع سے محروم کر دیں گی۔
اعداد و شمار کے مطابق، مغربی کنارے اور مشرقی القدس میں تقریباً 27 لاکھ فلسطینیوں کے درمیان سات لاکھ کے قریب اسرائیلی آباد کار رہتے ہیں۔ اسرائیل نے مشرقی القدس کو ضم کر لیا ہے، لیکن دنیا کے زیادہ تر ممالک اس اقدام کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ صورتحال مشرق وسطیٰ میں تنازع کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بن رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined