عالمی خبریں

افغانستان میں امن کے لیے ’جانی دشمنوں‘ کی ملاقات

افغانستان کی طاقتور شخصیات قطر میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کر رہی ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو طالبان کے سخت حریف ہیں، دوسری جانب امریکا اور طالبان کے مابین بھی مذاکرات دوحہ ہی میں جاری ہیں

افغانستان میں امن کے لیے جانی دشمنوں کی ملاقات
افغانستان میں امن کے لیے جانی دشمنوں کی ملاقات 

دونوں فریقین نے مذاکرات میں بہت کچھ داؤ پر لگایا ہے۔ واشنگٹن نے کہا ہے کہ وہ ستمبر میں افغان صدارتی انتخابات سے پہلے پہلے طالبان کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنا چاہتا ہے تاکہ امریکی افواج کے مکمل انخلا کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔ گزشتہ روز امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد کا قطر میں کہنا تھا، ''ہمارے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں یہ چھ دن سب سے زیادہ تعمیری رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

فریقین کا کہنا تھا کہ مذاکرات دو روز کے لیے ملتوی کر دیے گئے ہیں تاکہ افغان وفد کے ساتھ مذاکرات کیے جا سکیں۔ آئندہ منگل کے روز طالبان اور امریکا کے مابین دوبارہ مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا۔

Published: undefined

زلمے خلیل زاد کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''جب سے ہم نے مذاکرات کا آغاز کیا ہے، ہم چار معاملات کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ دہشت گردی، غیرملکی افواج کا انخلا، افغانوں کے مابین مذاکرات اور جنگ بندی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''پہلی مرتبہ میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے ان چاروں مسائل کے بارے میں کافی بحث اور مذاکرات کیے ہیں اور ان میں پیش رفت ہوئی ہے۔‘‘

Published: undefined

طالبان کے قطر میں ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا، ''ہم اس پیش رفت سے خوش ہیں، ہمیں ابھی تک کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔‘‘

Published: undefined

افغانوں کے مابین مذاکرات

Published: undefined

ان مذاکرات سے الگ آج دوحہ میں ہی افغانوں کے مابین مذاکرات ہو رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تقریبا ساٹھ افغان شخصیات دوحہ پہنچی ہیں، جن میں سیاستدان، خواتین اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔ جرمنی اور قطر کی حمایت سے شروع ہونے والے ان دو روزہ مذاکرات میں امریکا براہ راست شریک نہیں ہو گا۔

Published: undefined

ابھی تک طالبان اشرف غنی کی حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کرتے آئے ہیں اور ان کا افغان وفد کے بارے میں بھی یہی موقف ہے کہ یہ 'ذاتی حیثیت‘ میں ان سے ملاقات کر رہا ہے۔

Published: undefined

افغانوں اور طالبان کے مابین اس طرح کے مذاکرات تیسری مرتبہ ہو رہے ہیں۔ قبل ازیں فروری اور مئی کے دوران فریقین ماسکو میں اسی طرح کی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں خواتین کے حوالے سے طالبان کے موقف میں تبدیلی آئی ہے اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ طالبان کو براہ راست خواتین کی رائے بھی سننا پڑ رہی ہے۔

Published: undefined

طالبان اور امریکا کے مابین ہونے والے کسی امن معاہدے میں دو نکات مرکزی ہوں گے۔ ایک افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا اور دوسرا یہ کہ افغان سرزمین کو دہشت گرد گروپوں کو استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔

Published: undefined

سنگین مسائل غیر حل شدہ

Published: undefined

گزشتہ اٹھارہ برسوں میں افغان جنگ پر تقریبا ایک ٹریلین خرچ کرنے والا امریکا اس بات پر اصرار کرے گا کہ طالبان کابل حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کریں۔ لیکن خواتین کے حقوق، طالبان کے ساتھ طاقت کی شراکت داری، پاکستان اور بھارت جیسی علاقائی طاقتوں کا کردار اور اشرف غنی انتظامیہ کی قسمت کے فیصلے جیسے سنگین مسائل غیر حل شدہ ہی رہیں گے۔

Published: undefined

طالبان کو یقین ہے کہ ان مذاکرات میں ان کا ہاتھ ہاوی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ طالبان کی ان پرتشدد کارروائیوں کے باوجود بھی امریکا نے تعمیری مذاکرات کا کہا ہے۔

Published: undefined

سن دو ہزار سترہ تک افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب لورل ملر کا کہنا تھا، ''اس کا قوی امکان ہے کہ ستمبر سے پہلے ایک معاہدہ ہو جائے گا۔ لیکن یہ معاہدہ صرف طالبان اور امریکا کے مابین ہو گا، یہ افغانستان کے لیے امن معاہدہ نہیں ہو گا۔‘‘

Published: undefined

ان کا مزید کہنا تھا، ''اس میں بنیادی سوالات پر بات ہی نہیں کی گئی۔ افغانستان پر حکومت کرنے کے لیے طالبان کیا کردار ادا کریں گے اور کیا نہیں۔ امریکا کی طرف سے قائم کیے جانے والی موجودہ حکومت اور اور نظام کا مستقبل کیا ہو گا؟‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined