بنگلہ دیش کی ایک ندی، تصویر بشکریہ freepik.com
بنگلہ دیش میں کچھ ندیوں سے مستقل لاشیں برآمد ہو رہی ہیں۔ اس خبر نے مقامی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ لوگوں میں بھی تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔ بنگلہ دیش پولیس کا کہنا ہے کہ بری گنگا، شیت لاکشیہ اور میگھنا ندی سے اس نے تقریباً 750 لاشیں نکالی ہیں۔ کئی لاشیں ایسی ہیں، جس کے بارے میں پولیس کو کسی بھی طرح کی جانکاری نہیں مل پائی ہے۔ ندیوں سے مستقل نکل رہی لاشوں نے انتظامیہ کی فکر میں اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ نے لاشوں کی شناخت شروع کر جانچ کرنے کی بات کہی ہے۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ کئی لاشیں تو ایسی ہیں، جن کی شناخت کرنا بھی مشکل ہے۔
Published: undefined
بنگلہ دیش کے ایک اخبار نے اس سلسلے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اخبار کے مطابق جن لاشوں کی برآمدگی پولیس نے اب تک کی ہے، ان میں بیشتر بیگ میں ڈال کر پھینکے گئے تھے۔ کچھ لاشوں کے گلے میں اینٹ اور پتھر بھی باندھے گئے تھے۔ پولیس نے کچھ لاشوں کی شناخت کی ہے، جبکہ کچھ کو بغیر شناخت کیے ہی دفن کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ سبھی غائب اشخاص کی لاشیں ہیں۔ یہ کب غائب ہوئے تھے، اس کی کوئی جانکاری نہیں دی گئی ہے۔ مقامی کیرانی گنج پولیس کے مطابق روزانہ 3-2 لاشیں برآمد کی جا رہی ہیں۔ عوامی لیگ کی حکومت کے وقت یہ تعداد 5 سے زیادہ تھی۔ یعنی ندیوں سے لاشیں برآمد ہونے کا سلسلہ طویل مدت سے جاری ہے۔
Published: undefined
ندیوں سے مستقل نکل رہی لاشوں کے بارے میں 2 طرح کی تھیوری سامنے آ رہی ہے۔ پہلی تھیوری کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ غنڈے اور جرائم پیشے لوگوں کو اغوا کر مار رہے ہیں۔ ان کی لاشوں کو چھپانے کے لیے انھیں ندیوں میں پھینکا جا رہا ہے۔ جب لاشیں پھول کر باہر آ جاتی ہیں تو پولیس کو اس کی خبر لگتی ہے۔ سی جی ایس کے مطابق بنگلہ دیش میں ہر ماہ تقریباً 87 لوگوں کا اغوا ہو رہا ہے۔ یہ نمبر 2024 کے مقابلے میں 61 فیصد زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت اغوا اور اس کے بعد قتل واقعہ کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت کے داخلی امور کے مشیر نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔
Published: undefined
دوسری تھیوری یہ ہے کہ بیشتر لاشیں شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران ندیوں میں پھینکی گئی تھیں۔ ہیومن رائٹس کے مطابق حسینہ حکومت کے دوران تقریباً 700 لوگ غائب ہوئے تھے۔ یہ لوگ کہاں اور کیسے مارے گئے، اس کی جانکاری اب تک یونس حکومت کو نہیں مل پائی ہے۔ ساتھ ہی کیس کو جس طریقے سے پولیس کے افسران معمولی طور پر لے رہے ہیں، اس سے بھی کچھ سوالات مضبوطی کے ساتھ اٹھ رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined