تصویر سوشل میڈیا
شام میں حکومت اور سابق صدر بشار الاساد کے حامیوں کے درمیان خونی جھڑپوں میں 200 سے زیادہ لوگوں کی جانیں چلی گئی ہیں۔ یہ تشدد اس وقت پھوٹا تھا جب جمعرات کو لطاکیہ صوبہ کے دیہی علاقوں میں سرکاری فورسز پر اسد حامی جنگجوؤں نے گھات لگا کر حملہ کیا۔ یہ واقعہ اسد حکومت کے زوال کے بعد سب سے خطرناک چیلنج مانا جا رہا ہے۔
Published: undefined
سیریائی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق جمعہ کو ہوئے تازہ جھڑپوں میں 120 سے زیادہ افراد مارے گئے۔ یہ دن اسد کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد کا سب سے پُرتشدد دن بن گیا ہے۔ آبزرویٹری نے بتایا کہ جمعرات کو جابلیہ کے پاس سرکاری فوج پر ہوئے حملے میں کم سے کم 13 پولیس اہلکار کی جان چلی گئی تھی۔ اس کے بعد حکومت نے علاقے میں بھاری تعداد میں فوجی دستہ تعینات کرکے جوابی کارروائی میں اسد حامی جنگجوؤں کو نشانہ بنایا۔
Published: undefined
یہ جھڑپیں شام کے ساحلی علاقوں خاص کر لطاکیہ اور طارتوس میں ہوئیں جو اسد کنبہ کا گڑھ تسلیم کی جاتی ہیں۔ یہاں الوائٹ طبقہ کا اثر ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے حالات کو قابو میں کر لیا ہے لیکن اسد حامیوں کے ذریعہ بدلے کی کارروائی نے علاقے میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔ جمعہ کو کچھ کارکنان نے بتایا کہ الوائٹ علاقوں میں درجنوں مردوں کا قتل کر دیا گیا جس سے فرقہ وارانہ تشدد کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
Published: undefined
شام کی نئی حکومت کی قیادت عبوری صدر احمد الشارا کر رہے ہیں۔ انہوں نے تشدد کو دبانے کے لیے ساحلی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا اور اضافی سلامتی دستوں کو تعینات کیا۔ حکومت نے اسے 'اسد ملیشیا کے باقیات' کا منصوبہ بند حملہ قرار دیا ہے۔ حالانکہ ابھی تک مرنے والوں کی صحیح تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
Published: undefined
یہ تشدد دسمبر میں اسد کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد شروع ہوئی عدم استحکامیت کا حصہ ہے۔ اسلام پسند تنظیم حیاۃ التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں باغیوں نے دمشق پر قبضہ کرلیا تھا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اسد حامیوں کی جارحیت نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے جو ملک میں اتحاد اور عدم استحکام لانے کی کوشش کر رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined