
آئی اے این ایس
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایچ-1بی ویزا پروگرام کا دفاع کیے جانے کے ایک دن بعد وائٹ ہاؤس نے وضاحت جاری کی ہے کہ حکومت اس نظام کے ممکنہ غلط استعمال پر سخت کارروائی کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے امریکی میڈیا ادارے ’ڈیلی وائر‘ کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے صرف ان غیر ملکی ماہرین کی اہمیت پر زور دیا ہے جو امریکہ کے مخصوص صنعتوں کے لیے ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گی جو اس پروگرام کا ناجائز فائدہ اٹھا کر سستے غیر ملکی ملازمین کو بھرتی کرتی ہیں۔
Published: undefined
بدھ کے روز وائٹ ہاؤس کی ترجمان ٹیلر راجرز نے بھی کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے مختصر دورِ اقتدار میں جتنے سخت امیگریشن قوانین نافذ کیے، وہ کسی بھی جدید امریکی صدر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ ان کے مطابق، ’’صدر نے ہمیشہ امریکی کارکنوں کے مفاد کو ترجیح دی ہے، اسی لیے ایچ-1بی ویزا درخواستوں پر 1 لاکھ ڈالر کا اضافی فیس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ نظام کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔‘‘
یہ فیس دراصل ان کمپنیوں پر لاگو ہوگی جو غیر ملکی ماہرین کو ملازمت دینے کے بہانے امریکی شہریوں کو نظرانداز کرتی ہیں۔ راجرز نے کہا کہ اس اقدام سے مقامی روزگار کے مواقع محفوظ رہیں گے۔
Published: undefined
دوسری جانب، صدر ٹرمپ نے منگل کو فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ کو اب بھی ’باہر سے آنے والے باصلاحیت افراد‘ کی ضرورت ہے۔ جب اینکر نے یہ کہا کہ ’’ہمارے پاس تو کافی ٹیلنٹ ہے‘‘، تو ٹرمپ نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا، ’’نہیں، آپ کے پاس وہ خاص مہارت نہیں ہے۔ ہر بے روزگار شخص کو فیکٹری یا میزائل بنانے کے کام پر نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کے لیے مخصوص صلاحیت درکار ہے۔‘‘
اس دوران امریکی محکمۂ محنت نے ’پروجیکٹ فائر وال‘ کے تحت ایچ-1بی ویزا کے ممکنہ غلط استعمال سے متعلق 175 سے زائد کیسوں کی جانچ شروع کر دی ہے۔ محکمے کا کہنا ہے کہ وہ ان کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گا جو ویزا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر ملکی ملازمین کو غیر قانونی طور پر ملازمت دیتی ہیں۔
Published: undefined
محکمۂ محنت کی وزیر، لوری شاویز-ڈیریمر نے کہا، ’’ہم اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ امریکی شہریوں کی نوکریاں محفوظ رہیں اور ایچ-1بی ویزا کے غلط استعمال کو ختم کیا جا سکے۔‘‘ یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی ایچ-1بی پالیسی کو امریکہ کے اندر اور باہر دونوں جگہ شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے تجارتی ادارے ’یو ایس چیمبر آف کامرس‘ نے بھی اس پالیسی کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔
31 اکتوبر کو پانچ امریکی قانون سازوں نے صدر ٹرمپ کو ایک خط لکھ کر 19 ستمبر کے ان کے حکم نامے پر ازسرِنو غور کرنے کی درخواست کی۔ ان اراکین کا کہنا تھا کہ سخت شرائط عائد کرنے سے بھارت-امریکہ تعلقات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، سال 2024 میں ایچ-1بی ویزا کا تقریباً 70 فیصد حصہ بھارت سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کو ملا، کیونکہ امریکہ میں ہنر مند ہندوستانی کارکنوں کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined