عالمی خبریں

قطر کے بعد صہیونیوں کے ارادے!

حال ہی میں صہیونی ٹولے کی طرف سے جاری ’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے نے خون سے سنے ہوئے پنجوں کے خطرناک ارادوں کو آشکار کر دیا ہے

<div class="paragraphs"><p>دوحہ میں اسرائیلی فضائی حملے کا منظر، جس میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا&nbsp;/ Getty Images</p></div>

دوحہ میں اسرائیلی فضائی حملے کا منظر، جس میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا / Getty Images

 
Anadolu

برسوں سے اسرائیل نے ایران اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تنازع کو ایک ایسی کھلی جنگ کے طور پر دیکھا ہے جس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ لبنان میں حزب اللہ، شام میں بشار الاسد کی سابقہ حکومت، یمن میں حوثی افواج، حتیٰ کہ ایران کی اپنی سر زمین بھی صہیونی فضائی حملوں، رہنماؤں کے قتل اور تخریب کاری سے محفوظ نہ رہی۔ اگرچہ ان کارروائیوں سے عدم استحکام پیدا ہوا لیکن انہیں اکثر خطے کے دو طاقتور ممالک کے درمیان خفیہ تنازع کے حصے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ جب تک لڑائی ان گروہوں اور علاقوں تک محدود رہی، دیگر ممالک نے عموماً اسے قبول کیا۔ لیکن نہیں، قطر تو ایران کی پراکسی نہیں۔ یہ تو ایک دولت مند خلیجی ریاست ہے جو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی کرتا ہے جبکہ یہ ایک ’بڑا نان-نیٹو اتحادی‘ ہے جسے واشنگٹن نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

دوحہ پر حملہ کر کے اسرائیل نے حد پار کر دی ہے جس کے علاقائی سلامتی کے لیے گہرے مضمرات ہوں گے۔ یہ کسی بھی خلیجی سلطنت پر بڑا حملہ ہے۔ اس حملے نے ایک اشارے کے طور پر کام کیا جس نے ہر عرب ملک کو متنبہ کیا ہے اور انہیں سوالات پوچھنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا کسی بھی ملک کی خود مختاری کا واقعی احترام کیا جائے گا۔ قطر کی طرح، ترکیہ اور مصر بھی جنگ بندی مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے میں مذاکرات کے دوران ثالثی کے مرکز پر بمباری کرنا خود سفارت کاری کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونیوں کی اسی حرکت کے سبب تقریباً پوری دنیا اسرائیل اور اس کے قائدین پر لعنت ملامت کر رہی۔ یہ صورت حال امریکہ کو مزید تنازع میں الجھا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اس کی ضرورت ہے تاکہ امریکہ، اسرائیل کو سمجھ بوجھ دے سکے۔

Published: undefined

یہ تاثر کہ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، یہاں تک کہ قطر جیسے قریبی اتحادی کی خود مختاری کو نظر انداز کرنا، عرب ریاستوں میں شکوک و شبہات کو بڑھا دے گا کہ کیا مغربی ممالک اسرائیل کو قابو میں کرنے کے قابل ہیں۔ دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی بمباری صرف ایک فوجی کارروائی نہیں تھی۔ یہ اسٹریٹجک اعتبار سے کسی زلزلے سے کم نہیں تھا۔ منگل کو اسرائیل کے جنگی طیاروں نے قطر کی راجدھانی دوحہ میں ایک رہائشی کمپاونڈ پر بمباری کی، جس میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا جو امریکی سرپرستی میں ہونے والی غزہ جنگ بندی تجویز پر غور کرنے کے لیے وہاں موجود تھی۔ حالیہ حملے میں نشانہ بنائے جانے والے رہنما، حماس کے سیاسی بیورو ہیں۔ جن کے لیے حملہ کیا گیا، وہ محفوظ رہے لیکن دیگر اس حملے میں جانبر نہ ہو سکے۔ جاں بحق افراد میں ان کے محافظین، معاونین اور قطری افسر شامل ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل نے اپنی فوجی مہم کا دائرہ کار غزہ، لبنان، شام اور ایران سے زیادہ وسیع کیا ہے جبکہ اس نے اب ایک ایسے ملک پر حملہ کیا ہے جو عرب دنیا میں امریکہ کے سب سے قریبی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ اس صورتحال میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کو واضح نتیجہ اخذ کرنا چاہیے۔ دہائیوں تک انہوں نے اسرائیلی جارحیت کا الفاظ اور قراردادوں کی صورت میں جواب دیا ہے اور کھوکھلے اعلانات کی یہی وہ ریت ہے جس نے تل ابیب کو جنگی مشین میں تبدیل ہونے کی تقویت دی ہے۔ جب عرب ممالک میں اجتماعی عزم نہ ہو جیسے اسرائیل کا اقتصادی بائیکاٹ، سفارتی تعلقات منقطع کرنا اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو روکنا، تب تک اسرائیل غزہ میں اپنی جنگ کو سرحد پار دیگر ممالک تک پھیلاتا رہے گا۔ جب تک اسے نہیں روکا جاتا تب تک کوئی بھی ملک چاہے وہ علاقائی اعتبار سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، اسرائیل کی بربریت سے محفوظ نہیں ہے۔ آج دوحہ پر حملہ کل کو قاہرہ، ریاض یا دیگر ریاستوں پر بھی ہو سکتا ہے۔

Published: undefined

اس بات سے کوئی ریاست انکار نہیں کر سکتی کہ دوحہ پر اسرائیلی جارحیت کا یہ عمل بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے منشور اور خطے میں امن و استحکام کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ قطر کو نشانہ بنانا جس نے مشرق وسطیٰ میں امن، مذاکرات اور انسانی امداد کو فروغ دینے میں مسلسل تعمیری کردار ادا کیا ہے، نہ صرف بلا جواز ہے بلکہ اسرائیل کی مسلم اقوام کے خلاف بڑھتی مخاصمت کو بھی بے نقاب کرتا ہے ۔ صہیونی جارحیت کا یہ عمل نہ صرف مغربی ایشیا میں بد امنی کو بڑھانے بلکہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھی ہے ۔ ایسے موقع پر عالمی برادری خصوصاً مسلم ممالک کو عملی طور پر قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اور اس کی خود مختاری، قومی سلامتی، علاقائی سالمیت اور اپنے شہریوں کی حفاظت اور حماس کی سیاسی قیادت اور قطر کی کوششوں کی مکمل حمایت کرنا چاہئے۔

مسلم ممالک کے خلاف اسرائیل کی گھناونی حرکتیں کوئی نئی بات نہیں ہیں، یہ گزشتہ تقریباً 70 سال سے جاری ہیں جس کے لئے خود کو اسلامی ممالک کہنے والی مفاد پرست ریاستیں ذمہ داراور فلسطینیوں کی گنہگار ہیں۔ اس لئے کہ 50 سے زائد مسلم ممالک اگر متحد ہو کر فلسطین کی حفاظت کی لیے ایک آواز بھی بلند کرتے تو اس سے صہیونیت کی درو دیوار میں لرزا طاری ہو جاتا مگر ایسا نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست کے حوصلے بلند ہوتے گئے اور دھیرے دھیرے فلسطین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا، اتنا ہی نہیں اب اس کی دریدہ دہنی کا عالم یہ ہے کہ وہ پورے فلسطین پر قبضہ کرنے کی فراق میں ہے۔ حال ہی میں صہیونی ٹولے کی طرف سے جاری ’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے نے خون سے سنے پنجوں کے خطرناک ارادوں کو آشکار کر دیا ہے پھر بھی مسلم ممالک تعزیت اور مذمت پرہی اکتفا کئے ہوئے ہیں۔

Published: undefined

مسلم ممالک کی اسی بے حسی کے سبب ایک چھوٹی سی قوم نے اقوامِ عالم کو اپنے فریب کاریوں کے دام میں اسیر کر لیا ہے۔ حتیٰ کہ امت مسلمہ جیسی عظیم ملت بھی اس کی چالبازیوں کے سامنے فی الوقت بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ قابل ستائش بات یہ ہے کہ ایک جانب اگر بیت المقدس کے قرب و جوار میں اسرائیلی حکومت نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا تاکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم اور بیت المقدس کی بازیابی کے ارادے سے باز آ جائیں تو دوسری جانب حضرت ابراہیم کی سنت کی تقلید میں سینکڑوں فلسطینی والدین نے اپنے لخت ہائے جگر قبلہ اول کی تقدیس میں قربان کئے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ فلسطین تاریکی اور برائی کے خلاف لڑنے کی مشعل کو روشن کرتا ہے اور ان تمام شہداء کی میراث ہے جو طاقت اور منافع کی منطق کی پاسداری نہیں کرتے۔

فلسطین صرف مسلمانوں کا نہیں ہے۔ اگرچہ صہیونی اسے حریف مذاہب کے درمیان جنگ کے طور پر دکھانا چاہتے ہیں، فلسطین مقدس الہٰی مذاہب سے تعلق رکھتا ہے اور تمام انصاف اور آزادی کے متلاشی اس کے شہری ہیں۔ اس مملکت کی حفاظت ہماری صرف ذمہ داری نہیں بلکہ دینی فریضہ بھی ہے اس لئے اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور بین الاقوامی برادری کو چاہئے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اسے جوابدہ ٹھہرائیں۔ دھیان رہے کہ مغربی ایشیا میں امن تشدد، قبضے اور غیر قانونی فوجی حملوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انصاف، خود مختاری کا احترام اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری ہی آگے بڑھنے کے واحد پائیدار راستے ہیں۔ فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے شہریوں کے حوصلے اور جذبے سے یہی پیغام حاصل ہوتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined