فلم اور تفریح

بالی ووڈ پر پابندی سے بحران کی زد میں پاکستانی سینما، کئی سنیما گھروں پر لٹکے تالے!

رواں برس 14 فروری کو جموں و کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کا شکار ایک مرتبہ پھر فلم اور سینما ہی بنے۔

بالی وڈ پر پابندی سے بحران کی زد میں پاکستانی سینما
بالی وڈ پر پابندی سے بحران کی زد میں پاکستانی سینما 

پاکستانی سینما اپنے آغاز ہی سے بھارتی فلموں پر انحصار کرتا آیا ہے اور سال بھر میں ایک بالی وڈ فلم کا بزنس اکثر کئی پاکستانی فلموں کے مجموعی بزنس سے زیادہ ہی ہوجاتا ہے۔ تاہم دونوں ملکوں میں جاری تنازعات اکثر بالی وڈ فلموں کی پاکستان میں نمائش کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہتے ہیں۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

رواں برس 14 فروری کو جموں و کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کا شکار ایک مرتبہ پھر فلم اور سینما ہی بنے۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

اس حملے کے بعد بھارتی فلم پروڈیوسرز نے اپنی حکومت کی طرح ان حملوں کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے اپنی فلمیں پاکستان میں نمائش کے لیے دینے سےانکار کر دیا۔ اگرچہ اس مرتبہ پاکستان نے کوئی فوری رد عمل نہیں ظاہر نہیں کیا مگر 26 فروری کو بھارت کی جانب سے بالاکوٹ میں مبینہ فضائی حملے کے بعد پاکستانی سینما مالکان کی تنظیم نے اس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے بات کر کے بالی وڈ کابائیکاٹ کر دیا۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

اس عمل کے نتیجے میں پاکستانی سینما شدید بحران کی زد میں آگیا اور کئی سینما گھروں کو جزوی طور پر بند کرنا پڑا۔ اس دوران تین پاکستانی فلمیں ’شیر دل‘، ’لال کبوتر‘ اور ’پراجیکٹ غازی‘ نمائش کے لیے پیش کی گئیں، تاہم ان میں سے کوئی بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ پاکستان میں بالی وڈ کی حالیہ فلموں کو دیکھیں تو دسمبر 2018 میں شاہ رخ خان کی فلم ’زیرو‘ نے 14 کروڑ، رنویر سنگھ کی فلم ’سمبا‘ نے 19 کروڑ کا بزنس کیا جبکہ فروری میں ریلیز ہونے والی عالیہ بھٹ اور رنویر سنگھ کی فلم ’گلی بوائے‘ نے 12 دنوں میں پابندی سے پہلے ہی 10 کروڑ سے زیادہ کمالیے تھے۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

پاکستانی فلموں کی ناکامی اور بھارتی فلموں میں عدم موجودگی میں کیا پاکستانی سینما کے لیے کوئی دوسری راہ موجود ہے؟ اس بارے میں سابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی پابندیوں سے پاکستانی سینما اور پاکستانی فلموں کو زیادہ نقصان ہوتا ہے، نقصان بھارت کا بھی ہے کیونکہ پاکستان 22 کروڑ کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

اس کے حل کے لیے ان کا کہنا تھا کہ جب وہ وزیر تھے تو انہوں نے ایک فلم بورڈ تشکیل دیا تھا تاکہ بیرون ملک سے لوگ پاکستان آکر فلم بنائیں اور انہیں ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ سعودیہ عرب اور چین میں بہت بڑی مارکیٹ ہے اس کو بھی دیکھا جائے تاکہ پاکستانی فلمیں بنیں تو اپنے پیسے تو پورے کریں۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

انہوں نے بتایا کہ 30 سال پہلے پاکستان میں 1700 سینما اسکرینز تھیں اور اب صرف 150 سے کچھ زیادہ ہیں۔ سینما گھر اسی وقت بنیں گے جب فلم بزنس اچھا ہوگا۔ تاہم ان کے مطابق پاکستان اب بھی امن چاہتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بالی وڈ کی فلمیں پاکستان میں لگائی جائیں اور پاکستانی فلمیں بھارت میں دکھائی جائیں۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

پاکستانی فلم ایگزیبیٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین ندیم مانڈوی والا بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سال میں یہاں 15 سے 20 فلمیں بنتی ہیں اور ان میں سے بھی تین چار فلمیں عید الفطر اور عید الاضحٰی پر نمائش کے لیے پیش کردی جاتی ہیں تو باقی سارا سال بچا ہی کیا۔ ہالی وڈ کی فلموں کی ایک محدود مارکیٹ ہے اور انگریزی فلمیں چھوٹے شہروں میں بالکل نہیں چلتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تعطل عارضی ہے اور امید ہے کہ عارضی ہی رہےگا، لیکن اگر یہ مستقل ہوگیا تو پھر سینما کےلیے خطرناک صورت حال پیدا ہو جائے گی۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

ندیم مانڈوی والا کے مطابق، ’’سب جانتے ہیں کہ بھارتی فلمیں انٹرنیٹ، اور پائریٹڈ سی ڈیز کی شکل میں پاکستان بھر میں کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پابندی صرف سینما پر ہے یعنی ایک قانونی ذریعہ بند کر کے غیرقانونی ذریعہ کھلا رہنے دیا گیا۔‘‘

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

اس سلسلے میں انٹرنیشنل ملٹی گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین امجد رشید کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ پاکستانی سینما بالی وڈ کے بغیر فی الحال نہیں چل سکتا کیونکہ ہمارے پاس اتنا مواد ہی نہیں ہے کہ ہم سارا سال سینما میں چلاسکیں اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی سینما کی ترقی بالکل رک گئی ہے۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

امجد رشید کا مزید کہنا تھا، ’’اس بارے میں بھارت کے لوگوں کو بھی سوچنا ہوگا کیونکہ بالی وڈ کا تقریباﹰ دس فیصد عالمی منافع پاکستان سے آتا ہے، دونوں ملکوں میں ایک زبان سمجھی جاتی ہے اور یہ بڑا اثاثہ ہے۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ بھارت میں انتخابات کا عمل ختم ہونے کے بعد اس سلسلے میں کوئی پیشرفت ہوسکتی ہے کیونکہ بیک چینل پر رابطے جاری ہیں۔‘‘

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

فُٹ پرنٹ ڈسٹری بیوشن کمپنی کے جنرل منیجر مرزا سعد بیگ نےکہا کہ دیگرممالک جیسےترکی اورمصر سے فلمیں لا کر اردو میں ڈب کرکے چلانے کی کوشش کی تاہم اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی کیونکہ فلمیں اسٹارز پرچلتی ہیں اور ان ممالک کے اداکاروں کو پاکستان میں کوئی نہیں جانتا۔ ترکش ڈرامے بھی اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ وہ ٹی وی پر مفت دکھائے جاتے ہیں مگر سینما میں ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے: ’’فوری طورپرپاکستانی سینما کے لیے بظاہر کوئی حل نظرنہیں آتا کیونکہ مقامی فلمیں زیادہ سے زیادہ 20 بنتی ہیں اورسینما کو ہر ہفتے ایک نئی فلم چاہیے ہوتی ہے۔‘‘

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

دوسری جانب ایوارڈ یافتہ ہدایتکار جامی محمود کا کہنا ہے کہ پاکستانی فلمسازوں کی جانب سے بالی وڈ کی طرز فلمیں بنانے کا رجحان بھی اس تباہی کا ذمہ دار ہے: ’’ہم ان کی جیسی فلم نہیں بنا کر دے سکتے، ہمیں اپنی کہانیاں دکھانا ہوں گی۔ اگر ہم اپنا انداز متعارف کروائیں تو کامیابی کا امکان زیادہ ہے تاہم اس سلسلے میں پہلا قدم کون اٹھائے گا یہ اصل سوال ہے۔‘‘

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

بھارتی فلموں پر پابندی کی تاریخ

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

پاکستان میں بھارتی فلموں کی اگر تاریخ میں جائیں تو 1965 کی پاکستان بھارت کی جنگ کے بعد پاکستان نے بھارتی فلموں کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی جو 2007 تک برقرار رہی۔ ان 42 سالوں میں پاکستانی فلمی صنعت انحطاط کا شکار ہوکر بند ہوگئی یہاں تک کہ 2005 میں ایک بھی فلم نہیں بنی اور اس دوران بیشتر سینما گھر ٹوٹ کر شاپنگ مال یا شادی ہال میں تبدیل ہو گئے۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

2007 میں اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف نے محدود پیمانے پر بھارتی فلموں کی درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تاہم اس کا مکمل اطلاق 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ کیونکہ سینما کا کاروبار اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کا خاندانی کام رہا ہے اس لیے انہوں نے اس میں گہری دلچسپی لی۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

واضح رہے کہ بھارتی فلمیں پاکستان میں ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں شمار ہوتی تھیں اور اس پالیسی کے تحت بھارتی فلموں کی محدود تعداد کو پاکستان میں نمائش کے لیے خصوصی استثنٰی یا این او سی جاری کیا جاتا تھا جس کے بعد وہ فلم پاکستان میں درآمد کی جاتی تھی اور پھر اسے سینسر بورڈ نمائش کے لیے سند یا سرٹیفیکیٹ جاری کرتا تھا۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان میں سرمایہ کاروں نے نئے سینما گھروں کی تعمیر میں ایک بار پھر دلچسپی لینا شروع کی اور اگلے پانچ سال میں پاکستان کے بڑے شہروں میں کئی ملٹی پلیکس سینما تعمیر ہوئے۔ سینما کی تعمیر اور اسکرینز کی تعداد بڑھنے سے پاکستانی پروڈیوسرز کو حوصلہ ملا اور انہوں نے بھی فلمیں بنانا شروع کردیں اور 2014 کے بعد ’نامعلوم افراد‘، ’ایکٹر ان لاء‘ ، ’جوانی پھر نہیں آنی‘ اور ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ جیسی پاکستانی فلمیں بنیں جنہوں نے باکس آفس پر راج کیا۔ تاہم پھر بھی یہ تعداد محدود ہی رہی۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

ستمبر 2016 میں کشمیر میں واقع اُڑی کیمپ پر ہونے والے حملے کے دو ہفتے بعد انڈین موشن پکچرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں کے بھارت میں کام کرنے پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد منظور کی، جس کے جواب میں پاکستان میں بھی سینما مالکان نے از خود بھارتی فلموں کی نمائش روک دی تھی۔ تاہم یہ خود ساختہ پابندی دسمبر میں اٹھا لی گئی لیکن سرکاری کاغذی کارروائیوں اور مختلف اجازت نامے درکار ہونے کی وجہ سے مزید دو ماہ تک کسی بھی بھارتی فلم کی پاکستان کے سینما میں نمائش نہ ہوسکی۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

ان پانچ ماہ کے دوران پاکستانی سینما جانے والوں کی تعداد ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گئی۔ سینما مالکان کے مطابق جو پاکستانی فلمیں چل رہی تھیں انہیں بھی شدید نقصان ہوا کیونکہ سینما میں لوگوں کی آمد میں شدید کمی واقع ہوگئی جس کے نتیجے میں نمائش کے لیے موجود پاکستانی فلموں کو بھی نقصان ہوا اور کئی شہروں میں زیر تعمیر سینما بھی روک دیے گئے۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

اب آنے والی عید الفطر پر دو پاکستانی فلمیں ’چھلاوا‘ اور ’رانگ نمبر 2‘ کی نمائش کی جائے گی جن کی کامیابی یا ناکامی کا براہِ راست اثر پاکستانی سینما کےمستقبل پر پڑےگا۔ ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 21 May 2019, 11:10 PM IST