DW

پاکستانی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی تعداد میں اضافہ کیوں؟

توہین مذہب کے الزامات کے ساتھ ساتھ محدود معاشی مواقع پاکستانی خواتین کو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر مجبور کر رہے ۔

پاکستانی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی تعداد میں اضافہ کیوں؟
پاکستانی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی تعداد میں اضافہ کیوں؟ 

توہین مذہب کے الزامات کے ساتھ ساتھ محدود معاشی مواقع پاکستانی خواتین کو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر مجبور کر رہے ہیں اور اس جنوبی ایشیائی ملک کی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے رفیق مسیح اور ان کے چار بچے اگست 2021 سے خوف کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ تب رفیق مسیح کی اہلیہ کو اسلام آباد میں پولیس نے مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں پکڑ لیا تھا۔ اسی طرح 48 سالہ نرس شگفتہ کرن کو ایک واٹس ایپ گروپ میں اسلام کے بارے میں مبینہ توہین آمیز تبصرے کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا تھا۔

Published: undefined

خواتین قیدیوں کو بدسلوکی کا سامنا

پاکستان کی وزارت برائے انسانی حقوق کے مطابق کرن کی طرح ملک میں زیادہ تر قیدی خواتین ٹرائل کی منتظر ہیں۔ پاکستان میں قیدیوں کا 1.5 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں کُل 96 جیلیں ہیں لیکن ان میں سے صرف پانچ خواتین کے لیے ہیں جبکہ یونی سیکس جیلوں میں خواتین کو الگ بیرکوں میں رکھا جاتا ہے۔

Published: undefined

خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن (این سی ایس ڈبلیو) نے گزشتہ چند برسوں میں سلاخوں کے پیچھے خواتین کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔ این سی ایس ڈبلیو کے مطابق سن 2021 میں تمام صوبوں میں کل 4,823 خواتین قید تھیں۔ یہ تعداد سن 2022 میں 5,700 اور سن 2023 میں 6,309 تک پہنچ گئی۔

Published: undefined

ہیومن رائٹس واچ نے مارچ 2023 کی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا تھا کہ پاکستان میں خواتین قیدیوں کو ''خاص طور پر جیلوں کے مرد محافظوں کی طرف سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں جنسی زیادتی اور خوراک یا احسان کے بدلے جنسی تعلقات کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔‘‘

Published: undefined

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ جیلیں ضرورت سے زیادہ بھری ہوئی ہیں۔ جن کمروں میں تین خواتین قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے، وہاں پندرہ پندرہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس حوالے سے بھی خبردار کیا تھا کہ کم عمر قیدیوں کو الگ نہیں رکھا جاتا۔ اڈیالہ جیل میں قید ایک خاتون کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہاں نسوانی حفظان صحت کی مصنوعات بھی دستیاب نہیں ہیں۔

Published: undefined

جیلیں گھر سے دور

این سی ایس ڈبلیو کے مطابق تقریباً 27 فیصد خواتین قیدیوں کو ان کے آبائی اضلاع سے باہر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے، جو ان کے خاندانوں کے افراد کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اجازت ملنے پر قیدی اپنے اہل خانہ اور اپنے وکلاء سے ملاقاتیں کر سکتے ہیں۔ تاہم وکلاء کے مطابق قیدیوں اور ان کے سیلوں کی تصویر کشی، آڈیو ریکارڈنگ یا فلم بندی کرنا سختی سے ممنوع ہے۔

Published: undefined

انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے ادارے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا اس بات کی وکالت کرتی ہیں کہ قیدیوں کو ان کے گھروں کے قریبی جیلوں میں منتقل کیا جائے تاکہ ان کی ان کے ہل خانہ سے ملاقاتیں آسان ہو سکیں۔ سرکاری اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ملک میں 134 خواتین قیدیوں کے ساتھ ان کے نابالغ بچے بھی ہیں۔ قوانین بچوں کو پانچ سال کی عمر تک اپنی زیر حراست ماؤں کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن رپورٹیں ثابت کرتی ہیں کہ بعض صورتوں میں ایسے بچے وہاں نو یا 10 سال کی عمر تک بھی رہتے ہیں۔

Published: undefined

پاکستان کا معاشی بحران اور جرائم میں اضافہ

راولپنڈی میں مقیم ایک وکیل صفدر چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تقریباً 90 فیصد خواتین قیدیوں کو عدالتوں سے بری کر دیا جاتا ہے لیکن اس سے پہلے انہیں ایک طویل عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستانی عدالتوں پر کام کا اتنا زیادہ بوجھ ہے کہ وہ روزانہ زیر التواء 50 مقدمات میں سے صرف پانچ یا چھ ہی کی سماعت کر سکتی ہیں اور باقی مقدمات کی سماعت ملتوی کر دی جاتی ہے۔ تاہم وہ بتاتے ہیں کہ جب بھی ان کے سامنے خواتین کے خلاف مقدمات کی بات آئی، تو انہوں نے تیز رفتار ٹرائل کو یقینی بنایا۔

Published: undefined

این سی ایس ڈبلیو کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معاشی بدحالی نے بھی کم آمدنی والے افراد کو روزمرہ کے اخراجات پورا کرنے کے لیے منشیات کی سمگلنگ یا ڈکیتی جیسی مجرمانہ سرگرمیوں پر مجبور کر دیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورتحال مرد اور خواتین دونوں طرح کے قیدیوں کے لیے یکساں ہے۔

Published: undefined

نیلوفر بختیار کے مطابق ان کی تنظیم نے حکومت کے سوشل سیفٹی نیٹ پروگرام کی مدد سے بہت سی کم آمدنی والی خواتین قیدیوں کو ان کی رہائی کے لیے جرمانے، ضمانتیں اور بانڈز کے اخراجات ادا کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔ وہ پاکستان میں قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے کے لیے کام کے بہتر مواقع کے ذریعے خواتین کو مجموعی طور پر بااختیار بنانے پر بھی زور دیتی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined