DW

لاکھوں امریکیوں کی جاسوسی، الزام چینی حکومتی ہیکنگ گروپ پر

واشنگٹن میں چین نے فوری طور پر ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن چینی سفارت خانے نے پابندیوں کے بارے میں برطانیہ کے استدلال کو ''مکمل طور پرمن گھڑت اور بدنیتی پر مبنی بہتان‘‘ قرار دیا۔

لاکھوں امریکیوں کی جاسوسی، الزام چینی حکومتی ہیکنگ گروپ پر
لاکھوں امریکیوں کی جاسوسی، الزام چینی حکومتی ہیکنگ گروپ پر 

امریکی اور برطانوی حکام نے چینی ہیکنگ گروپ اے پی ٹی 31 پر سیاسی شخصیات کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس جاسوسی کا مقصد بیجنگ حکومت کے ناقدین کو 'دبانا‘ تھا۔امریکی اور برطانوی حکام نے چینی ریاست سے منسلک ہیکنگ گروپ 'ایڈوانسڈ پرسسٹنٹ تھریٹ‘، جو اے پی ٹی 31 کے نام سے معروف ہے، کے ہیکرو ں پر ''بدنیتی پر مبنی‘‘ سائبر مہم چلانے کا الزام لگایا ہے۔

Published: undefined

امریکہ نے پیر کے روز ان ہیکرز پر چین کے 'معروف ناقدین‘ کو نشانہ بنانے کے لیے ان کے کمپیوٹرز میں تکنیکی مداخلت کرنے کا الزام بھی لگایا۔ واشنگٹن میں امریکی محکمہ خزانہ نے کہا کہ اس نے ووہان ژیاؤ روئزیچی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ کے خلاف کارروائی کی ہے، جو چین کی وزارت برائے اسٹیٹ سکیورٹی کی صف اول کی کمپنی کے طور پر کام کرتی ہے اور جس نے مبینہ طور پر ''بدنیتی پر مبنی متعدد سائبر آپریشنز کے لیے ڈھال کے طور پر کام کیا ہے۔‘‘

Published: undefined

محکمہ خزانہ نے ووہان کمپنی سے وابستہ دو چینی شہریوں ژاؤ گوانگ زونگ اور نی گاؤبین کو بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ان کارروائیوں کے دوران دفاع، ایرو اسپیس اور توانائی سمیت امریکہ کے کلیدی انفراسٹرکچر سیکٹر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکی محکمہ انصاف نے ژاؤ، نی اور پانچ دیگر ہیکرز پر کمپیوٹرز میں مداخلت اور وائر فراڈ کی سازش کا الزام بھی لگایا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ وہ گزشتہ چودہ برسوں سے سائبر مہم میں ملوث تھے، جس میں ''امریکی اور غیر ملکی ناقدین، کاروباری اداروں اور سیاسی عہدیداروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔‘‘

Published: undefined

امریکی حکام نے بتایا کہ یہ افراد چین میں قائم ہیکنگ گروپ اے پی ٹی 31 کا حصہ تھے، جس نے مبینہ طور پر وائٹ ہاوس کے عملے، امریکی سینیٹرز اور بیجنگ پر تنقید کرنے والے امریکہ کے سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔

Published: undefined

امریکی ڈپٹی اٹارنی جنرل لیزا مونا نے ایک بیان میں کہا کہ ہیکرز کا مقصد ''چینی حکومت کے ناقدین کو دبانا، سرکاری ادارو ں کے خلاف اقدامات کرنا اور تجارتی راز چرانا‘‘ تھا۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم آئندہ ملکی انتخابات کے قریب ہیں۔‘‘ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اے پی ٹی 31 نامی ہیکنگ گروپ تقریباً چودہ سال سے کام کر رہا تھا اور سائبر جاسوسی کے نتیجے میں لاکھوں امریکیوں کے ورک اکاؤنٹس اور ذاتی ای میلز ممکنہ طور پر غیر محفوظ ہو گئے تھے۔

Published: undefined

برطانیہ کا الزام

لندن میں نائب وزیر اعظم اولیور ڈاؤڈن نے اراکین پارلیمان کو بتایا کہ ان سائبر حملوں میں ملکی الیکشن کمیشن اور برطانیہ کے پارلیمانی اکاؤنٹس کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا، ''چینی ریاست سے وابستہ افراد بدنیتی پر مبنی سائبر مہم کے لیے ذمہ دار تھے، جنہوں نے ہمارے جمہوری اداروں اور اراکین پارلیمان دونوں کو نشانہ بنایا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے قانون سازوں کے ای میل اکاؤنٹس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی ''ناکام‘‘ کوشش کی گئی۔

Published: undefined

برطانوی حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ اس کی جی سی ایچ کیو انٹیلی جنس ایجنسی نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ چینی ریاست سے وابستہ اس گروپ کی طرف سے سن 2021 اور 2022 کے دوران برطانیہ کے الیکشن کمیشن کے نظام میں مداخلت کی گی۔ بیان میں مزید کہا گیا، ''انٹیلی جنس حکام کو اس بات کا تقریباً یقین ہے کہ اے پی ٹی31 گروپ نے سن 2021 میں ایک علیحدہ مہم کے دوران برطانوی اراکین پارلیمان کے خلاف جاسوسی کی کارروائیاں کیں۔‘‘

Published: undefined

ڈاؤڈن نے کہا کہ برطانیہ نے چین میں رہنے والے دو افراد نیز اے پی ٹی 31 سے وابستہ ایک شخص کے خلاف پابندی کی منظوری دے دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں چین کے سفیر کو اس معاملے میں جواب دہی کے لیے طلب بھی کر لیا گیا ہے۔

Published: undefined

چین کا ردعمل

واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے فوری طور پر ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن چینی سفارت خانے نے پابندیوں کے بارے میں برطانیہ کے استدلال کو ''مکمل طور پر من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی بہتان‘‘ قرار دیا۔ کل پیر کے روز نیوزی لینڈ کی سکیورٹی کی وزیر جوڈتھ کولنز نے بھی کہا کہ سن 2021 میں ملکی پارلیمان کو اسی چینی ہیکنگ گروپ نے نشانہ بنایا تھا۔

Published: undefined

کولنز نے تاہم کہا کہ نیوزی لینڈ چین پر پابندی عائد کرنے میں امریکہ اور برطانیہ کی تقلید نہیں کرے گا کیونکہ ویلنگٹن کے پاس ایسا کوئی قانون نہیں، جو اسے ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہو۔ چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ متعلقہ ممالک کو کسی ثبوت کے بغیر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے دعووں کے حق میں ثبوت پیش کرنا چاہییں۔ وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ''ہم ایسے بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined