ثقافت

دلیپ کمار کا پشاور سے ممبئی تک کا سفر

دلیپ کمار کا اصلی نام یوسف خان تھا اور وہ غیر منقسم ہندوستان کے شہر پشاور میں ایک پشتون خاندان میں گيارہ دسمبر سن 1922 میں پیدا ہوئے تھے۔ منفرد اندازا کے لیے انہیں شہنشاہ جذبات کے لقب سے نوازا گیا۔

دلیپ کمار کا پشاور سے ممبئی تک کا سفر
دلیپ کمار کا پشاور سے ممبئی تک کا سفر 

برصغیر کے معروف اداکار دلیپ کمار کچھ دنوں سے علیل تھے۔ انہیں سانس لینے میں شکایت کے بعد ہسپتال میں داخل کرایا گیا تاہم کل صبح ساڑھے سات بجے ان کا انتقال ہوگيا۔ اس ماہ کے اوائل میں بھی اسی عارضے کے باعث انہیں اسپتال میں رکھا گیا تھا۔

Published: undefined

بھارتی فلموں کے شہرہ آفاق اداکار دلیپ کمار نے اپنی فطری اداکاری کے ساتھ مختلف النوع کرداروں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دنیا بھر کے شائقین اور مداحوں کا دل جیتنے کے ساتھ ہی انہوں نے شہرت کی بلند ترین منزلیں طے کیں۔ وہ اپنی خوبصورت شکل و صورت کے ساتھ ہی گھمبیر آواز میں مکالموں کی ادائیگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔

Published: undefined

دلیپ کمار کا اصلی نام یوسف خان تھا اور وہ غیر منقسم ہندوستان کے شہر پشاور میں ایک پشتون خاندان میں گيارہ دسمبر سن 1922 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام لالہ غلام سرور جبکہ والدہ کا نام عائشہ بیگم تھا۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختون خوا کے شہر پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ان کا آبائی مکان آج بھی محفوظ ہے اور اسے اب حکومت نے تاریخی ورثہ قرار دے دیا ہے۔

Published: undefined

ان کے والد پھلوں کا کاروبار کرتے تھے اور بچپن میں دلیپ کمار بھی اپنے والد کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ روزگار کی تلاش میں کم عمری میں ہی انہوں نے صنعتی شہر بمبئی کا سفر کیا اور بمبئی پہنچ کر برطانوی فوج کی ایک کینٹین میں کام کرنا شروع کیا۔

Published: undefined

اسی کینٹین میں اس وقت کی معروف اداکارہ دیویکا رانی اور ان کے شوہر ہمانشو رائے کی ان پر نظر پڑی۔ اس خوبرو نوجوان سے بات چیت کے بعد انہیں فلم میں اداکاری کی پیشکش کی۔ دیویکا رانی نے ہی انہیں یوسف خان کے بجائے دلیپ کمار نام اپنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ دلیپ کمار کی بطور اداکار سن 1944 میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم 'جوار بھاٹا' تھی۔ باکس آفس پر یہ کوئی بہت کامیاب فلم نہیں تھی۔

Published: undefined

تین برس بعد1947 میں انہوں نے نور جہاں کے ساتھ فلم 'جگنو' کی اور یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی جس کی وجہ سے فلمی دنیا میں ان کی پہچان بڑھ گئی۔ پھر سن 1949 میں انہوں نے اس وقت کے بڑے اداکار راج کپور کے ساتھ مل کر فلم 'انداز' میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اس فلم کی ہیروئن نرگس تھیں۔ اسی فلم میں ان کے شاندار اسٹائل اور عمدہ لب و لہجے نے انہیں ایک مقبول اسٹار بنا دیا۔

Published: undefined

انداز کی شاندار کامیابی کے بعد ان کے انتہائی یادگار فلمی سفر کا آغاز ہوا۔ سن 1951 میں انہوں نے فلم 'دیدار' کی اور اگلے ہی برس ان کی مشہور فلم داغ ریلیز ہوئی۔ ان دونوں میں انہوں نے ایک ٹریجڈی ہیرو کا کردار ادا کرتے ہوئے جن جذبات اور تاثرات کا اظہار کیا، اس سے نہ صرف فلم شائقین محظوظ ہوئے بلکہ فلمی امور کے ماہرین نے بھی ان کی کردار نگاری کو خوب سراہا۔ داغ فلم میں بہترین اداکاری کے لیے انہیں پہلے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گيا۔ سن 1955 میں ان کی شہرہ آفاق فلم 'دیوداس' آئی اور اس کے لیے بھی انہیں فلم فیئر ایورڈ دیا گیا۔

Published: undefined

اس دور میں بیشتر فلموں میں اسکرین پر ان کی شخصیت کو ایک بہت ہی غمزدہ اور قسمت و حالات کے مارے ہوئے انسان کے کردار میں پیش کیا گيا۔ ایسے کرداروں میں انہوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کے ایسے ان مٹ نقوش ثبت کیے کہ انہیں ٹریجڈی کنگ یعنی شہنشاہ جذبات کے لقب سے نوازا گیا اور پھر یہی لقب ان کی پہچان بن گيا۔

Published: undefined

وقت کے ساتھ ہی بالی وڈ میں ان کا وقار بڑھتا چلا گیا اور بہت سی فلموں میں انہین رومانی ہیرو کے لیے کاسٹ کیا گیا۔ ان میں 'آن'، 'آزاد' 'انسانیت' اور 'کوہ نور' جیسی کامیاب فلمیں اس بات کی گواہ ہیں کہ دلیپ کمار نے رومانٹک ہیرو کے طور پر بھی ایک شاندار روایت چھوڑی۔ سن 1960 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم مغل اعظم جہاں خود ایک شاہکار تھی وہیں مغل شہزادے سلیم کے کردار میں ان کی اداکاری کے جوہر کا سب نے اعتراف کیا۔

Published: undefined

ان کی فلم، مدھو متی، گنگا جمنا، رام شیام، نیا دور، کرانتی، ودھاتا اور کرما بالی ووڈ کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہیں، جو باکس آفس میں بھی سپر ہٹ رہیں۔ راج کمار کے ساتھ فلم 'سوداگر' اور امیتابھ بچن کے ساتھ 'شکتی' بھی قابل ذکر فلمیں ہیں، جس میں انہوں نے اپنے ہم عصر سپر اسٹاروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک الگ انداز اور شناخت پیش کی۔ بڑے پردے پر ان کی آخری فلم 1998میں 'قلعہ' آئی تھی۔ دلیپ کمار نے متعدد بار فلم فیئر ایوارڈ جیتا اور سن 2015 میں بھارت کے دوسرے سب سے بڑے سویلین اعزاز 'پدم بھوشن‘ اور 1994میں فلموں کے سب سے بڑے ایوارڈ 'دادا صاحب پھالکے ایوارڈ' سے نوازا گیا تھا۔ سن 1997 میں حکومت پاکستان نے بھی دلیپ کمار کو اپنے اعلی سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا۔

Published: undefined

کانگریس پارٹی نے دلیپ کمار کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا تھا اور اس طرح وہ چھ برس تک رکن پارلیمان بھی رہے۔

Published: undefined

دلیپ کمار نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ابتدا میں بطور اداکار وہ اشوک کمار کے انداز سے بہت متاثر تھے پھر اشوک کمار نے ہی ان سے نیچرل انداز اپنانے کا مشورہ دیا تھا۔ اشوک کمار اور دلیپ قریبی دوست بھی تھے۔ اس دور میں راج کپور، دیوا آنند اور دلیپ کمار بالی ووڈ کے سب سے بڑے نام تھے اور یہ تینوں آپس میں گہرے دوست بھی تھے۔

Published: undefined

اردو ادب سے محبت

یوسف خان کی تعلیمی لیاقت کے بارے میں بہت زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں تاہم انہیں اردو ادب سے بڑی دلچسپی تھی اور انہیں جب بھی موقع ملتا وہ اس زبان سے محبت کا اظہار کرتے تھے۔ کئی بڑے مشاعروں میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ذاتی طور پر بھی ایسی محفلوں کا انعقاد کرتے رہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یوسف خان کو کرکٹ کا بھی کافی شوق تھا اور پکوان میں بھی دلچسپی تھی۔

Published: undefined

محبت کی داستانیں

ایک دور میں دلیپ کمار کے ان کی ساتھی اداکاراؤں کے ساتھ معاشقوں کے بھی کافی چرچے رہے۔ اس میں سب سے پہلے کامنی کوشل کا نام آتا ہے۔ مدھو بالا سے ان کے تعلق کے بارے میں بھی کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ فلم ترانہ کی شوٹنگ کے دوران ان کی مدھو بالا سے دوستی ہوئی تھی اور کہا جاتا ہے کہ سات برس تک ان کا یہ رومان چلا۔

Published: undefined

تاہم بعد میں بعض اختلافات کے سبب دونوں میں ایسا اختلاف پیدا ہوا کہ فلم مغل اعظم کے بعد کبھی بھی ایک ساتھ کام نہیں کیا۔ اس کے بعد اداکارہ وجنتی مالا سے بھی ان کے افیئر کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ پردے پر دلیپ کمار اور وجنتی مالا کی جوڑی بھی بہت کامیاب رہی۔ دلیپ کمار نے سب سے زیادہ کام بھی انہیں کے ساتھ کیا۔

Published: undefined

شادیاں

سن 1966 میں دلیپ کمار نے اداکارہ سائرہ بانو سے پہلی شادی کی، جو عمر میں ان سے 22 برس چھوٹی تھیں۔ سن 1981 میں انہوں نے حیدر آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون اسما صاحبہ سے دوسری شادی کی۔ تاہم یہ دوسری شادی زیادہ دیر تک نہیں چل سکی اور 1983 میں طلاق ہو گئی۔

Published: undefined

دلیپ کمار کو ان دونوں بیویوں سے کوئی اولاد نصیب نہیں ہوئی۔ اپنی سوانح عمری 'دلیپ کمار: سبسٹنس اینڈ دی شیڈو' میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سن 1972 میں، "سائرہ بانو امید سے تھیں تاہم حمل کے آٹھویں ماہ میں سائرہ کو پیچیدگیاں شروع ہوئیں اور بالآخر ڈاکٹر بچے کو بچا نہ سکے۔" اس کے بعد دونوں نے خدا کی مرضی سمجھ کر کے کبھی دوبارہ کوشش نہیں کی۔

Published: undefined

سائرہ بانو اور دلیپ کمار نے سن 2013 میں مکہ کا سفر کیا اور ایک ساتھ حج ادا کیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined